والدین کے ساتھ حسن سلوک

Share:

والدین کے ساتھ حسن سلوک

والدین جب باحیات ہوں تو ان کے ساتھ حسن سلوک کرنا چاہئے اور دعائیں بھی

دینی چاہئے ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے 
وَقَضٰی رَبُّکَ أَلاَّ تَعْبُدُوْٓا إِلَّآ إِیَّاہُ وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًاط إِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَکَ الْکِبَرَ أَحَدُھُمَآ أَوْ کِلٰھُمَا فَلاَ تَقُلْ لَّھُمَآ أُفٍّ وَّلَا تَنْھَرْ ھُمَا وَقُلْ لَّھُمَا قَوْلًا کَرِیْمًا وَاخْفِضْ لَھُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَۃِ وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْھُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًا [الاسرا:۲۳۔ ۲۴] 
ترجمہ: اور تیرا پروردگار صاف صاف حکم دے چکا کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا، اگر تیری موجودگی میں ان میں سے ایک یا یہ دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں، تو ان کے آگے اُف تک نہ کہنا، نہ انھیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا، بلکہ ان کے ساتھ ادب و احترام سے بات چیت کرنا اور عاجزی اور محبت کے ساتھ ان کے سامنے تواضع کا پہلو پست رکھنا اور دعا کرتے رہنا ،اے میرے رب! ان پر ویسا ہی رحم کر جیسا انہوں نے میری بچپن میں پرورش کی ہے۔ 
اس سے ایک بات یہ معلوم ہوئی کہ والدین کے لئے دعا کرنا احسان وسلوک میں سے ہے ۔ 
اور جب والدین فوت ہوجائیں تو رفع درجات اور طلب مغفرت کے لئے بطور خاص دعا کرنا چاہئے ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے : 
رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا (الإسراء:24)
ترجمہ : اے میرے رب! ان دونوں پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے بچپن میں مجھے (رحمت و شفقت سے) پالا تھا۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے : 
رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ(ابراہیم : 41) 
ترجمہ: اے میرے پروردگار! مجھے، میرے والدین اور سب ایمان والوں کو اس دن معاف فرمانا جس دن حساب لیا جائے گا۔
جناب ابواسید مالک بن ربیعہ ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : 
أن رجلًا قال : يا رسولَ اللهِ هل بقِيَ من برِّ أبويَ شيءٌ أبرُّهما به بعدَ موتِهما؟ قال: نعم، الصلاةُ عليهما والاستغفارُ لهما وإنفاذُ عهدِهما من بعدِهما وإكرامُ صديقِهما وصلةُ الرحمِ التي لا تُوصَلُ إلا بهما(مجموع فتاوى ابن باز251/13)
ترجمہ: کہ ایک آدمی نے نبی ﷺ سے پوچھا اے اللہ کے رسول! میرے والدین کے مرجانے کے بعد بھی ان کے ساتھ حسن سلوک کی کوئی صورت ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں ہے، ان کے لئے دعا اور استغفار کرنا، ان کے بعد ان کی وصیت و اقرار کو نافذ کرنا، جو رشتے انہیں کی وجہ سے جڑتے ہیں، انہیں جوڑے رکھنا، ان کے دوستوں کی خاطر مدارات کرنا (ان حسن سلوک کی یہ مختلف صورتیں ہیں) ۔
٭ اس روایت کو شیخ البانی نے ضعیف کہا ہے مگر شیخ ابن باز نے کہا کہ اس کے راوی علی بن عبید کو ابن حبان نے ثقہ اور حافظ ابن حجر نے مقبول کہا ہے اور اس کے لئے شواہد ہیں جواس کی صحت پہ دلالت کرتے ہیں ۔ (حاشية بلوغ المرام لابن باز:779)
اسی طرح مسلم شریف کی مندرجہ ذیل حدیث بھی دلالت کرتی ہے ۔ 
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا مات الإنسانُ انقطع عنه عملُه إلا من ثلاثةٍ : إلا من صدقةٍ جاريةٍ . أو علمٍ ينتفعُ به . أو ولدٍ صالحٍ يدعو له( صحيح مسلم:1631)
ترجمہ: جب آدمی مرجاتا ہے تو اس کا عمل اس سے منقطع ہوجاتا ہے، مگر تین چیزیں ہیں (جن کا فائدہ اسے مرنے کے بعد جاری رہتا ہے) صدقہ جاریہ۔علم جس سے نفع حاصل کیا جاتا ہے۔ نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرتی ہے۔
البتہ جس حدیث کو بنیاد بناکر کہاجاتا ہے کہ وفات کے بعد والدین کے لئے دعا 
ترک کردینے سے روزی منقطع ہوجاتی ہے وہ حدیث باطل ومردود ہے ۔
عن أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ :إِذَا تَرَكَ الْعَبْدُ الدُّعَاءَ لِلْوَالِدَيْنِ ؛ فَإِنَّهُ يَنْقَطِعُ عَلَى الْوَلد الرِّزْقُ فِي الدُّنْيَا.(دیلمی) 
ترجمہ: انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب بندہ والدین کے لئے دعاکرنا ترک کردیتا ہے تو اولاد پر دنیاوی رزق منقطع ہوجاتا ہے ۔ 

No comments