صوفی نذیر احمد.....حصہ دوم.. طلب.کا کشکول
مدینہ منورہ کی خاک شفا۔۔
مدینہ منورہ کی فضاؤں میں خاموش ادب سےسر جھکائے کھڑے کھجور کے تناور درخت میرے بدن پر پڑے آ بلوں کو تک رہے تھے۔
میری دعا تو شاید مقبول ہو چکی تھی لیکن قدرت مجھے اس مٹی کی قدر و قیمت سے آگاہ کرنا چاہتی تھی ۔
ایک دن جب رات اپنے پر سمیٹے خاموشی سے رخصت ہوئی اور دن اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ روشنی بکھیرتا ادب سے مدینہ کی فضاؤں کو سلام کرنے آیا تو میں نے دیکھا ایک شخص میرے پاس کھڑا ہے اور مجھے اپنے ساتھ چلنے کا اشارہ کر رہا ہے.
میں اسے قدرت کا کوئی پیغامبرسمجھ کر چپ چاب اس کے ساتھ ہو لیا۔۔۔
لمبی لمبی گزر گاہوں اور مدینہ منورہ کی چمکدار گلیوں سے ہوتا ہوا وہ شخص مجھے حرم نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سے تھوڑا دور لےگیا ۔
یہ ایک سپاٹ میدان تھا ۔اس نے مجھے ایک طرف بیٹھنے کا اشارہ کیا ۔میں کسی اسی تابعدار بچے کی طرح چپ چاپ ایک طرف ہو کر بیٹھ گیا ۔
میرے جسم پر پڑے آبلوں سے ہلکا ہلکا پانی رس رہا تھا۔ جس سے ایک ناگوار سی بو اورہلکا ہلکا ساتعفن میرے گرد و نواح کوسوگوار سا بنا رہا تھا۔
وہ شخص نے کندھے پر پڑی چادر اتاری ۔اور اس میں لپٹی ہوئی ایک کدال نکال کر زمین کو کھودنے لگا ۔
میں چپ چاپ یہ منظر دیکھ رہا تھا۔۔
کھودتے کھودتے گڑھا اس قدر گہرا ہوگیا کہ ایک انسانی جسم اس میں کھڑا ہو سکے۔
اب اس نے مجھے اس گڑھے میں اترنے کا اشارہ کیا ۔ میں کسی تابعدار بچے کی طرح حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اس گڑھے میں اتر گیا۔
وہ دوبارہ نہایت مستعدی سے اپنی کدال سے مٹی واپس گڑھے میں ڈالنے لگا ۔۔۔۔
رفتہ رفتہ وہ مٹی میرے گلے تک آن پہنچی اب میرا پورا وجود اس مٹی میں دفن ہو چکا تھا ۔
میرا چہرہ صرف باہر تھا ۔
اس ساری کارروائی کے دوران وہ شخص ایک لفظ بھی منہ سے نہیں بولا ۔
اور مجھ میں بھی شاید کوئی سوال کرنے کی سکت نہیں تھی۔۔۔
میں خاموش تھا ۔ اس نے آخر میں اپنے ہاتھوں سے میرے گلے کے قریب سے مٹی کو ہموار کیا اور ایک اچکتی نگاہ مجھ پر ڈالی ۔۔
پھر وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا درمیانہ رفتار سے واپس لوٹ گیا ۔۔۔
میں چپ چاپ اسے واپس جاتا ہوا دیکھ رہا تھا۔
میں پورے کا پورا چہرے اور سر کے علاوہ مٹی میں دفن ہو چکا تھا۔
یہ تمام صورتحال ایک 17 ۔18 سالہ نوجوان کی سمجھ بوجھ سے بالاتر معاملہ تھا ۔
لیکن یہ تو میرے آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی نگری تھی۔ اس نگری میں کوئی مہمان کیوں کر مایوس اور لا چار ہو سکتا ہے یہ احساس مجھے ایک اطمینان بخش رہا تھا کہ میں اپنے آقا کی نگری میں ہوں ۔۔۔۔
سورج دھیرے دھیرے بلند ہوا ۔ میرے کانوں نے دور سے مسجدوں میں بلند ہوتی ظہر کی اذان سنی اور پھر رفتہ رفتہ فضا میں خاموشی گہری ہونے لگی۔۔۔
سعودی عرب میں ظہر کی نماز کے لئے تمام دکانیں بند ہوتی تو پھر عصر کی نماز کے بعد دوبارہ کاروباری معمولات شروع ہوتے۔
مقامی لوگ ظہر سے عصر تک آرام کرتے اور سڑکوں پر پر جو چہل پہل ہوتی وہ بالکل معدوم ہوجاتی۔۔۔
میرے پاس اس لمحوں کو گزارنے کے علاوہ ان کا کوئی مصرف نہیں تھا ۔۔۔۔
میرا دل گواہی دے رہا تھا کہ اس مٹی نے مجھے قبول کر لیا ہے۔۔۔
اب یقینا یہی مٹی میرا مسکن بنے گی۔۔۔
بیماری کے الم اور بے بسی کا مجھ پر شائبہ تک نہ تھا۔ میری روح اطمینان کے سرخ گلابوں پر لوٹ پوٹ تھی اور ان گلابوں کی مسحور کن خوشبو روح کو ایک نئی تقویت دے رہی تھی۔۔۔
عصر کی اذان میرے کانوں سے ٹکرائی میں نے اپنی بند آنکھیں کھولیں اور کوشش کر کے آسمان کی طرف طرف دیکھا۔
میرا رب میرے رب کی رحمت بھی غالبا میری طرف ہی متوجہ تھی۔۔۔
اس رحمت کا اشیر باد پا کر میرے لبوں پر ایک اطمینان کی مسکراہٹ لپٹ گئی۔۔۔۔
اور میں نے اپنی نگاہیں دور نظر آنے والے کھجور کے درختوں کے جھنڈ پر جما دیں۔۔۔
وہ بھی شایدمیری طرف ہی متوجہ تھے۔ مجھے یوں لگا جیسے ان پر بیٹھے پرندے مجھ سے میرا احوال دریافت کر رہے ہوں۔دور نظر آنے والی گزرگاہوں پر ہلکی پھلکی چہل پہل شروع ہو چکی تھی ۔
ہر کوئی اپنے آپ میں مگن آ جا رہا تھا ۔اور میں مدینے کی مٹی کا ایک حصہ بنا ہوا اپنی ی قسمت پر نازاں تھا تھا جسم سے اٹھنے والی درد کی تمام لہریں دم توڑ چکی تھیں۔۔ میں صرف اپنے ذہن اور دل کے ساتھ زندہ تھا گویا میرا کوئی وجود ۔کوئی جسم تھا ہی نہیں۔۔۔
صرف میں ایک احساس بنا ہوا ان ہواؤں میں بکھرا ہوا تھا ۔
سورج بھی اب اپنی آرام گاہ کی طرف ایک طویل دن گزار کراب اپنی آ رام گاہ کی جانب جانے کی تیاری میں تھا۔۔۔
اور جانے سے پہلے شاید وہ مجھے اپنی تمازت کے ساتھ مجھے الوداعی سلام کرنے آیا تھا ۔۔۔
مجھے یوں لگا جیسے کہہ رہا ہوں نذیراحمد عباسی کل ہم گنبد کے سائے میں تم سے دوبارہ ملیں گے۔۔۔۔
میں نے سورج کی بات سن کر آنکھیں کھولیں تو میرے سامنے وہی صبح والا شخص ہاتھ میں کدال لیے دوبارہ موجود تھا ۔۔۔
اب وہ نہایت تیزی سے اپنے کام میں مشغول تھا اور جلدی جلدی گڑھے سے مٹی نکالنے میں مصروف ۔۔۔۔۔
گویا اس کی کوشش ہو کہ آفتاب کے گھر پہنچنے سے پہلے پہلے وہ اپنا کام نبٹا لے۔
وہ تھک جاتا تو اپنی چمکدار آنکھوں میں ایک امید کی جوت لیے مجھے تکنے لگتا ۔۔۔
پھر اپنا پسینہ صاف کرتا اور دوبارہ مٹی کھودنے میں مصروف ہو جاتا۔
اس کی سفید براق توپ مٹی میں پوری طرح اٹ چکی تھی۔۔۔
وہ نہایت تیزی سے اپنے لباس کی پرواہ کئے بغیر اپنا کام نمٹانے میں مگن تھا۔۔۔۔۔
وہ اپنی چمکدار آنکھوں سے جو مسرت سے مزید چمک رہی تھی میری طرف دیکھ رہا تھا ۔۔
اس نے اپنا ہاتھ میری طرف بڑھایا اور مجھے گڑھے میں باہر نکالنے میں میری مدد کرنے لگا ۔۔۔
میں گڑھے سے باہر زمین پر آ ن کھڑا تھا ۔۔۔
وہ صفائی میں میری مدد کر رہا تھا۔۔
تمام ابلے میرے جسم کو چھوڑ کر رخصت ہو چکے تھے میں ایک نارمل جلد کے ساتھ صحت مند و توانا کھڑا اس خاک سے شفا کا یہ معجزہ دیکھ رہا تھا۔۔۔
یہ یہ سب کچھ ایک خواب تھا؟؟؟
یا کوئی معجزہ ؟؟
میری عقل سمجھ سے بالاتر تھا۔
میرے جسم کے تمام ابلے ختم ہو چکے تھے میں ایک ایک صحت مند جلد کے ساتھ اس کے سامنے موجود تھا ۔۔۔
وہ بہت خوش تھا اس نے مجھے بتایا کہ یہ خاک شفا کا میدان ہے۔۔۔
وہ میدان جس کی میرے آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی حیات مبارکہ میں نشاندہی کی تھی کہ اس جگہ کی مٹی تمام عام لوگوں کے لیے شفا ہے ہے اور یوں میں اس خاک شفا سے شفایاب ہو چکا تھا ۔۔۔
میری میری سمجھ سے یہ سب کچھ بلند ترتھا ۔۔۔
میں تو اس مہربان محسن کے چہرے پر بکھری خوشی اور نورانیت میں محو تھا۔۔۔
کل ہی ایک قافلہ مکہ مکرمہ روانا ہو رہا ہے تم علی اللصبح ان کے ساتھ مکہ مکرمہ روانہ ہو جاؤ تاکہ فریضہ حج کی ادائیگی کر سکو۔۔اس نے مجھے ہدایت کی۔۔
اس کے بعد دوبارہ مدینہ منورہ آجانا وہ مجھے سب کچھ سمجھا رہا تھا۔۔
ہماری بس اپنی رفتار سے مکہ مکرمہ کی طرف رواں دواں تھی دونوں طرف طرف ریت کے ٹیلے تھے تھے ہم مدینہ منورہ کے کے پہاڑوں کی حدود سے تھوڑا آگے نکل چکے تھے اس زمانے میں سڑکیں اتنی ی معیاری نہیں ہوا کرتی تھی ۔۔
بسیں بھی پرانی وضع کی ہوتی تھیں جن کے انجن آگے کو نکلے ہوئے ہوتے تھے تھے جب راستے میں ریت کا طوفان آتا تو گاڑیوں کے انجن میں ریت چلی جاتی ۔۔۔اس کو نکال لیں اور بس کو دوبارہ اپنی راہوں پر رواں دواں ہونے میں بعض اوقات کئی کئی دن لگ جاتے۔۔۔
طوفان کے بعد سڑکیں پوری طرح ریت میں چھپ جاتیں جس کی وجہ سے سفر جاری رکھنا مزید دشوار ہو جاتا اور زائرین کئی دن راستے میں پڑے رہتے۔۔۔۔
ہماری بس اپنی رفتار سے مکہ مکرمہ کی طرف رواں دواں تھی۔۔
تمام مسافروں نے احرام زیب تن کیے ہوئے تھے اور کبھی بلند آواز میں اور کبھی زیر لب تلبیہ پڑھتے جا رہے تھے ۔۔۔
ایک حاجی کے لیے یہ سفر نہایت اہم ہوتا ہے جب وہ اس مقام سے احرام باندھتا ہے جہاں سے میرے آقا علیہ الصلاۃ والسلام نے اپنے صحابہ کرام کے ساتھ احرام باندھا۔۔۔۔
دھن
مسجد ذوالحلیفہ یہ وہ مقدس مقام ہے جو مدینہ منورہ سے مکہ کی طرف جانے والے حاجیوں کی میقات میرے آقا میرےسیدی سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی حیات مبارکہ میں مقرر کی ۔۔۔۔
اور آج تک وہاں جانے والا ہر حاجی جب یہاں رک کر کر احرام باندھتا ہے تو وہ اس چودہ صدیاں پرانے منظر کو اپنی آنکھوں میں سمو کرعقیدت کے بوسے ضرور دیتا ہے ۔۔۔۔
ہماری بس کے سامنے کھڑے احرام میں ملبوس چند افراد ہاتھ ہلا ہلا کر کر ہمیں رکنے کا اشارہ کر رہے تھے۔۔انہیں دیکھ کر ہماری بس کے ڈرائیور نے یک دم رفتار مدھم کر دی اور ایک جھٹکے سے بریک لگائی۔۔۔
جس سے کچھ خواب خرگوش کے مزے لیتے ہوئے حاجی ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھے اور نئے جوش و جذبے کے ساتھ بس میں
لبیک اللھم لبیک
کی صدائیں بلند ہونے لگیں۔۔۔
ہم بس سے نیچے اتر آئے ۔ سڑک کے ایک طرف ہمیں ایک بس ریت میں اٹی ہوئی دکھائی دی ۔
جو غالبا خراب ہو چکی تھی ۔اور اس کے مسافر پریشان حال تھے۔
جب میں ان کے قریب گیا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہ تو میرے ہی قافلے کے وہ ساتھی تھے جن کے ساتھ میں پاکستان سے حج کرنے آیا تھا اور وہ مجھے بیمار چھوڑ کر مدینہ منورہ سے مکہ کی طرف چند دن پہلے روانہ ہوئے تھے۔۔۔
میں قدرت کی اس پروگرامنگ پر حیران ہو رہا تھا کہ کہ وہ ساتھی مجھے زندہ سلامت دیکھ کر حیرت سے چیخنے لگے.
کیا تم نذیر احمد ہو؟؟
کیا تم ذندہ ہو؟؟؟
یہ کیسے ممکن ہوا ؟؟؟؟
کیوں کر ہوا؟؟؟
اللہ اکبر...سبحان اللہ
No comments