گوشہ نور کے سالکین
سیدالقاسمین(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)۔
(سبق نمبر۔۔۔۔..9)
منزل کی حقیقت کیا ہے؟؟
اب میں یہ جاننے کے لیے میں بے قرار تھی۔
رفتہ رفتہ مراقبے میں بھی بہتری آتی جا رہی تھی ۔
اور کملی والے کا دربار بڑا دل نشین ہے۔
سب بانٹنے والوں کے سردار " سید القاسمین "میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں اللہ مجھے عطا کرتا ہے میں بانٹتا ہوں۔۔
پھر اس در سے کسی کی جھولی کسی کا کشکول خالی واپس کیسے آ سکتا ہے ۔
چاہے وہ دنیا کی طلب میں جائیں یا من کی تلاش کا کوئی سوال اٹھائے۔۔۔۔
ان کی نظر کرم سے کوئی محروم نہیں رہ سکتا۔۔۔۔
ان کی نظر اپنے سوالی کی زبان سے نکلے ہوئے ہرحرف کو سنتی ہے اور سوالی کے دل میں چھپے ہوئے سارے سوال بھی جان لیتی ہے ۔۔۔۔
ایسی حسین ہے وہ نظر ۔۔۔۔۔
ایسا جمال ہے اس احساس میں
" کہ ہر کوئی فدا ہے بن دیکھے
دیدار کا عالم کیا ہوگا"۔
جب وہ نظر اٹھ جاتی ہے تو پھر کرم ہو جاتا ہے ۔۔۔
۔۔اٹھ گئی جو اک نظر
جتنےخالی ہیں
سب جام بھر جائیں گے۔۔۔۔۔
میں نے یہ بات اسی راہ پر چلنے والی ایک بزرگ باجی جان سے پوچھی۔۔ ۔۔۔
یہ کیسے ہوتا ہے؟؟؟؟
یہ خالی جام کیسے بھرتے ہیں؟؟
وہ فرمانے لگی۔۔ دیکھو بیٹا جام تو بھر جاتے ہیں۔۔لیکن اس بھرے ہوئے جام کو سنبھالنا۔۔۔
اپنے وجود کو اس کے شا یا ن شان کرنا۔۔۔
اصل کامیابی ہے۔۔۔
اس بات کو ہم اس مثال سے سمجھتے ہیں۔۔
ایک شخص جو دور دراز کسی گاؤں میں رہتا ہے۔جس کا گھر کچا ہے۔
اس گھر میں نہ بجلی ہے نا بجلی کی وائرنگ ۔۔۔
مٹی کی دیواریں بھی شکستہ ہو رہی ہے ۔۔
ایک دن وہ کسی طرح وہ شہر میں ایک امیر آدمی کے گھر پہنچ جاتا ہے۔۔۔ وہاں رات کے وقت بھی بجلی کے کے فانوس قم قما رہے ہوتے ہیں۔۔
ہر طرف روشنی کی چکاچوند ہے۔ اور سخت گرمی کے باوجود گھر اندر سے سپلٹ اے سی کی وجہ سے ٹھنڈا ٹھار ہے۔۔۔
اس سادہ لوگ شخص کو یہ سب کچھ بہت اچھا لگتا ہے وہ مالک سےسوال کرتا ہے۔۔۔
باہر بہت گرمی ہے اور یہاں بہت مزے کی ٹھنڈک یہ کیسے ممکن ہے؟؟؟؟
مالک سپلیٹ اسی کی طرف اشارہ کر کے کہتا ہے یہ سب اس کی وجہ سے ہے۔۔۔
یہ سن کر اس سادہ لوح دیہاتی کےچہرے پر ایک دکھ سا آجاتا ہے لیکن آنکھوں میں امید کی ایک چمک سی گوندتی ہے۔۔۔
اور وہ اس مہربان میزبان سے سوال کرتا ہے کیا یہ پلیٹ اےسی میرے گھر میں بھی لگ سکتا ہے ؟؟؟
مہربان میزبان جو ایک دریا دل شخص ہوتا ہے اسے ایک سپلیٹ اےسی عنایت کر دیتا ہے۔۔۔
وہ خوشی خوشی اسے لے کر اپنے گھر کی طرف رواں دواں ہوتا ہے۔
جب وہ گھر پہنچتا ہے تو اسے احساس ہوتا ہے کہ اس کے گھر میں تو بجلی کا کنکشن ہی نہیں ہے ۔۔۔۔
گھر کی دیواریں اتنی شکستہ ہیں کہ سپلٹ یونٹ کا وزن ہی برداشت نہیں کرسکے گی۔۔۔
اب وہ بے بسی کے عالم میں اس بیش قیمت یونٹ کی طرف دیکھتا ہے اور اپنے کچے گھر کی طرف ۔۔۔
اب بتاؤ اس میں قصور کس کا ہے دینے والے کایا لینے والے کا؟؟؟؟
باجی جان نے اپنی بات مکمل کر کے میری طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھا ۔۔۔۔
اور مجھے خاموش پا کر گویا ہوی۔۔
یاد رکھو وہ تھوڑی دیر اسے سامنے رکھ کر اپنی اوقات اپنی بے بسی پر آنسو بہائے گا۔۔۔۔۔
پھر ایک ولولہ ایک جوش اسکی سوچ کو ایک نیا رخ دے گا ۔اور وہ ایک نیا عزم لے کر نکل کھڑا ہوگا۔
کیونکہ وہ جان چکا ہے کہ اگلا کام اس کے خود کرنے کاہے۔۔
وہ نکل پڑتا ہےتلاش میں ان تمام اسباب کی جن کو حاصل کرکے وہ اپنے گھر کو اس قابل بنا لے کہ یہ سپلٹ اے سی اس میں فٹ ہو سکے۔۔۔
عطا تو ہو جاتی ہے۔
فیوض وبرکات تو ہر لمحہ بٹ رہی ہیں ۔
کام تو ہمیں اپنے اوپر کرنا ہے۔
گھر اپنا پکا کرنا ہے۔
من اپنا صاف کرنا ہے۔
تاکہ جو ہمیں ملے ۔جو ہمیں عطا ہو اس عطا کےشایان شان ہمارا دل بھی ہو۔۔۔۔۔۔
اس کو کیسے سنبھالیں؟؟
اسکو کہاں رکھیں؟؟؟
اس سے کیسے مستفید ہوں؟؟
جنہوں نے اس راز کو پالیا۔۔۔
اس کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔۔۔
پھر چشمِ فلک نے دیکھا۔۔۔
تاریخ سے ان کے سنہرے نام۔۔
چمکتا جھومربنا کر اپنے ماتھے پر سجا لے۔۔۔
چند سالوں میں وہ آ دھی دنیاکے حکمران بن بیٹھے۔
انہوں نے نہ صرف دنیا پر حکومت کی بلکہ دنیا والوں کےدلوں پر راج کیا۔۔۔۔
ایسا راج جسکی مثال رہتی دنیا تک نہیں کوئی قایم کرسکتا۔۔۔
انکی محبت۔انکا انصاف۔ انکا قانون مسلم اور غیر مسلم سب کے لیے یکساں تھا۔
جنہوں نے انسانیت کو معراج دی۔۔۔۔
وہ سب اسی امت کے روشن ستارے آج بھی دنیا والوں کی یادداشت میں چمک رہے ہیں۔۔۔
کیوںکہ انہوں نے اس کا راز پا لیا.
No comments