طلب کا کشکول...۔۔(حصہ 2)
۔۔ہمارے لئے یہ رستہ زیادہ کٹھن ہے ۔میں نے سوال کیا دیکھو بیٹامیرے آقا علیہ الصلاۃ والسلام جن کا لایا ہوا دین ہم نے قبول کیا ہے جن کے امتی ہونے کا اعزاز ہم نے ان کا کلمہ پڑھ کر حاصل کیا یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ اپنی امت کی طرف سے غافل ہوں۔۔
تمہارا کام کشکول ہاتھ میں پکڑے اس در کی دہلیزپر پہنچنا ہے ۔ وہ کیسے میں نے وضاحت چاہی؟
وہ مسلسل سر جھکائے ہمہ تن گوش تھے ۔میرا سوال سن کر انہوں نے سر اٹھایا اور فرمانے لگے۔۔۔۔۔۔
اپنی حاضری لگوانے کبھی دربار عالیہ میں گئی ہو ؟ میں شاید ان کے اس سوال کے لیے تیار نہیں تھی سٹ پٹا سی گی میرے سے کوئی جواب نہ بن پایا تو میں نے کہا جی الحمدللہ متعدد مرتبہ حج اور عمرے کرنے کی سعادت حاصل ہوئی ہے مجھے۔
وہ مسکرا یے اور گویا ہوئے ۔۔کبھی اپنی طلب کے لئے کشکول پکڑ کر دربار مصطفی گئی ہو۔؟
پہلے طلب پیدا کرو طلب جب تڑپ بن جائے تو من اردگرد سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔ پھر پورا وجود کشکول بن جاتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں خیرات لینے والوں کی فہرست میں آ پ کو شامل کر لیا جاتا ہے۔۔جب تک طلب اس حد تک نہ پہنچی کہ آپ کا وجود مٹ جائے اور آپ کا سوال باقی رہے خیرات مل بھی جائے تو اسے سنبھال نہیں پاؤ گے۔۔
No comments