صوفی نذیر احمد۔۔...(حصہ اول) طلب کا کشکول
جب آپ وہاں جا کر سیٹ ہوجائیں تو صوفی نذیر صاحب کو ضرور دھونڈنا اس نے کہا ۔یہ صوفی نذیر احمد کون ہے ؟میں نے پوچھا صوفی نذیر ایک بہت بڑی شخصیت ہے۔۔۔۔آپ کو اللہ کریم سعودی عرب میں مقیم ہونے کی سعادت دے رہے ہیں ۔یہ بہت بڑی سعادت ہے . لیکن اگر آپ اس دوران صوفی صاحب کو ڈھونڈنے میں کامیاب ہو جاؤ تو یہ بہت بڑی بات ہے وہ بہت پُرجوش تھی۔
سعودی عرب جانے کے پہلے میں اپنی ایک بہت پیاری اللہ اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بے حد عقیدت و محبت رکھنے والی سہیلی کو خدا حافظ کہنے آئی تھی ۔اور وہ مجھے صوفی نذیر کا تعارف کروا رہی تھی۔ میں انہیں کیسے ڈونڈھ سکتی ہوں ؟ابھی تک میرے لئے بات واضح نہیں ہو رہی تھی۔ میں نے دوبارہ سوال کیا ۔
مجھے ان کے بارے میں کچھ نہ کچھ معلومات ہو ں تب ہی میں انہیں ڈھونڈ سکو ں گی میں نے اپنے خدشات کا اظہار کیا ۔
وہ مسلسل پرجوش تھی ۔ کہنے لگی اگر تمہاری طلب لگن سچی ہو گی اور وہ حیات ہوئے تو مجھے یقین ہے کہ تم انہیں ڈھونڈنے میں کامیاب ہو جاو گی۔ مجھے ان کے بارے میں کچھ بتاؤ تو سہی وہ کون ہیں؟ اور آپ انہیں کیسے جانتی ہو؟میں نے پوچھا ۔
میری ایک ملنے والی سعودی عرب میں ایک سفیر کی بیوی تھی۔ یہ برسوں پہلے کی بات ہےاس زمانے میں جب وہ پاکستان آتی تو ہم اسے ملنے جاتے اور بڑے ذوق شوق سے ان سے مدینہ منورہ کی باتیں سنتے تھے ۔
ایک دفعہ اس نے بتایا کہ مدینہ منورہ میں ایک صوفی نذیر احمدصاحب رہتے ہیں ۔ جو مستجاب الدعوات ہیں ۔ ان کی دعا سے ایک مرتبہ مدینہ منورہ میں ایک مردہ زندہ ہو گیا تھا ۔
جب بھی پاکستان کے کسی اعلی شخصیت کو کوئی اہم مسئلہ درپیش ہوتا اور انہیں دعا کروانی ہو تی تو وہ صوفی صاحب کی خدمت میں حاضر ہوتے تھےاوردعا کرواتے ۔
اس بات کو اتنا زیادہ عرصہ گزر چکا ہے سوچتی ہوں پتہ نہیں وہ حیات بھی ہوں گے یا نہیں ۔ اب تم وہاں مقیم ہونے جا رہی ہو . میری طبیعت میں بزرگوں کی عقیدت مدینہ منورہ سے وابستہ لوگوں کی محبت اور لگن دیکھ کر انہیں لگا کہ شاید میں ڈھونڈنے میں کامیاب ہو جاؤں گی۔
بات ختم کر کے اس نے اپنی پرامید نگاہیں میرے چہرے پر گاڑ دیں ۔
لیکن ان کے بارے میں کچھ اور معلومات بھی ہونی چاہیے وہ مدینہ منورہ میں کیا کام سر انجام دیتے تھے تھے ۔میں تفصیلات جاننے کے در پر تھی۔
وہ مسجد نبوی شریف میں اپنی خدمات سر انجام دیتے تھے بہت سالوں سے وہیں مقیم ہیں ۔ اور شاید اب تو بہت ضعیف ہو چکے ہوں گے۔ اس نے جواب دیا .
خدا کرے وہ زندہ ہو ں اور میری دعا ہے کہ آپ انہیں ڈھونڈنے میں کامیاب ہو جاؤ ۔
وہ بہت پر امید تھی میں نے اس لمحے صوفی نذیرکا نام بہت احتیاط سے اپنی یادداشت کے خانے میں سنبھال کر رکھ لیا۔اور ان سے بہت ساری دعائیں سمیٹ کر اپنے سر زمین حجاز کے سفر کی تیاریوں میں مشغول ہو گئی۔
سعودی عرب آنے کے بعد جب بھی مدینہ منورہ حاضری کا موقع ملتا میں جھٹ سے اپنے ذہن سے صوفی نذیر احمد کے نام کی پرچی نکالتی اور دعا کرتی اللہ کریم مجھے اس بزرگ ہستی کی زیارت نصیب فرما ۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مدینہ منورہ میں کچھ لوگوں سے سے تعلقات استوار ہوئے تو ان سے بھی صوفی صاحب کے بارے میں پوچھا لیکن کوئی سراغ نہ مل سکا ۔کیوں کہ کسی شخص کو ڈھونڈنے کے لئے جو بنیادی معلومات درکار تھی وہ میرے پاس نہیں تھی ۔۔
میں تو صرف اتنا جانتی تھی کہ اس نام کا کوئی شخص مد ینہ منورہ میں رہتا ہے ۔مجھے یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ وہ مدینہ منورہ کی کون سی بستی میں مقیم ہیں ؟اس جہاں والی یا دوسرے جہان والی۔؟؟؟(یعنی جنت البقیع میں مکین ہونے کی سعادت پا چکے ہیں) ۔۔
کبھی کبھی میں اتنی بے بسی کے عالم میں دعا کرتی کہ میری بے بسی کے آنسو میرے چہرے کو بھگو دیتے۔
میں سوچتی میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پیار کرنے والوں کے لیے ہمارے دلوں میں اللہ نے اتنی محبت ڈال دی ہوتی ہے تو میرے آقا علیہ الصلاۃ والسلام ظاہری دنیا میں مسجد نبوی میں تشریف فرما ہوتے تھے تو اس وقت صحابہ کرام کی محبت کا کیا عالم ہوگا۔
کیفیات کیا ہوگی؟؟ وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اپنے دل میں کیسی محبت کیسی تڑپ محسوس کرتے ہوں گے۔۔
میرا اللہ قرآن نے کہتا ہے۔۔۔
قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۳۱)
ترجمہ: کنزالایمان
اے محبوب تم فرمادو کہ لوگو اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میرے فرمان بردار ہوجاؤ اللہ تمہیں محبوب رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
اور جس کو میرا رب محبوب بنا لیتا ہے پھر مخلوق خدا بھی اس کے لیے اپنے دل میں محبت کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر محسوس کرنے لگتی ہے۔ اس کا نام سن کر چہرے پر پیار بھری مسکراہٹ اور دل میں اس شخص سے ملنے کی تمنا پنپنے لگتی ہے ۔
کچھ ایسا ہی میرے ساتھ ہو رہا تھا۔ گزرتا ہوا ہر دن میری دعا کی شدت میں اضافہ کر رہا تھا۔میں چپکے چپکے ان کی زندگی اور سلامتی کی دعائیں کرتی رہتی تھی۔
میں ایک ایسے شخص کے لئے دعا کر رہی تھی اور اپنے دل میں ان کی محبت محسوس کر رہی تھی جن کے بارے میں مجھے نہیں معلوم تھا کہ وہ حیات بھی ہیں یا نہیں۔میں کہتی اہے میرے پروردگار اگر وہ زندہ ہیں تو انہیں لمبی زندگی دینا اور مجھے سعادت دینا کہ میں ان کی زیارت کر سکوں ۔۔
جوں جوں وقت گزرتا جا رہا تھا میری تڑپ اور تلاش میں شدت آ رہی تھی۔دن نہیں مہینے نہیں اب تو سال بھی میری دعاؤں کو سن چپکے سے گذر جاتے ۔
اب تو میں مدینہ منورہ روانہ ہونے سے پہلے ہی رب العالمین سے دعائیں مانگنا شروع کر دیتی کہ اے رب کریم اگر آپ چاہیں تو اسی سفر میں میری ان سے ملاقات کروا دے ۔
پھر ایک مبارک مقبولیت والی ساعت تھی جب یہ دعا میرے لبوں پر مچل رہی تھی ۔اور اللہ تعالی نے اس دعا کو مقبول کرلیا۔۔۔
مدینہ منورہ میں ایک خوبصورت پر نور ساعت تھی ۔مدینہ کی ہواؤں میں ہر طرف درود و سلام کی دھیمی دھیمی سرگوشیاں سنائی دے رہی تھی۔ اس شہر کی فضا نے کتنے ہی عشق و محبت کے پیکر دیکھے ہیں اور ان کے پاؤں چومنے کی سعادت اس دھرتی کی مٹی کو حاصل ہے ۔
چودہ سو سالوں نے کتنی ہی مبارک ہستیوں کو اپنی بہتی آنکھوں بھیگی پلکوں کے ساتھ انہی رستوں پہ چلتے پھرتے دیکھا ہوگا ۔ ان کے عقیدت کے آنسوؤں کی نمی میں آج بھی مدینہ کی ہوائیں اپنے سینے سے لگائے ہوئے محسوس ہوتی ہیں۔
ہم بابا جی یاسین کی خدمت میں مودب بیٹھے ہوئے تھے۔ ( بابا جی یاسین کا تعارف میں اپنے ایک گزشتہ مضمون میں کرا چکی ہوں ).
وہ ہمیں ماضی کے مدینہ منورہ کی سیر کروا رہے تھے اور اس دور کے لوگوں کی محبت ہمیں بتا رہے تھے۔ انہوں نے ہمیں باباجی" بلیوں والے"کا قصہ بھی سنایا تو میں نے ان سے سوال کیا بابا جی آپ اتنے برسوں سے یہاں مقیم ہیں کیا آپ صوفی نذیر احمد کے بارے میں کچھ جانتے ہیں۔۔ ؟؟
میرا سوال سن کر بابا جی ٹھٹھک سے گئےاور چونک کر بولے بیٹا آپ صوفی نذیر کو کیسے جانتی ہو؟؟؟
میں نے کہا بابا جی میں نے کسی سے ان کے بارے میں سن رکھا ہے۔ اور میں کئی برسوں سے ان کی تلاش میں ہوں ؟
لیکن ان کا کوئی پتہ نہیں مل رہا ۔
ہاں بیٹا نذیر اور میں بہت پرانے ساتھی ہیں۔ ہم پاکستان میں بھی ایک ہی علاقے سے تعلق رکھتے ہیں ۔ جب سے مدینہ منورہ آیا ہوں میری اور صوفی نذیر کی اس وقت کی دوستی ہے ۔ کیا وہ اب حیات ہیں؟
میں نے دھڑکتے ہوئے دل سے سوال کیا وہ گہری سانس لے کر لمحہ بھر کو خاموش ہوئے پھر بولے بیٹا وہ بہت ضعیف ہوچکے ہیں اور علیل ہیں۔
شاید ہاسپٹل میں ہے آج کل ۔انہوں نے نے دکھ سے جواب دیا ۔
میری درخواست ہے بلکہ اسے ایک بیٹی کی التجا سمجھیں آپ نے مجھے ان سے ملوانا ہے۔
میں بے قراری سے کہا۔
وہ مسکرائے اور کہنے لگے ہم اپنی بیٹی کی بات بھلا کیسے ٹال سکتے ہیں ۔میں ان سے اجازت لے لو ں پھر میں خود تمہیں لے کر ان کے گھر جاؤں گا انشاء اللہ۔۔۔۔۔۔
(جاری ہے)
No comments