والدین ‏کو ‏کیسے ‏خوش ‏دکھا ‏جا ‏سکتا ‏ہے

Share:
والدین کو خوش رکھنے کے گر
والدین کی ناراضگی ختم کرنے کے گُر*

ایک عالم دین سے ایک نوجوان شخص نے شکایت کی کہ میرے والدین اڈھیر عمر ھیں اور اکثر و بیشتر وہ مجھ سے خفا رہتے ھیں حالانکہ میں انکو ہر وہ چیز مہیا کرتا ھوں جسکا وہ مطالبہ کرتے ھیں ۔۔

عالم دین نے نوجوان شخص کو سر سے پیروں تک دیکھا اور فرمانے لگے کہ بیٹا یہی تو انکی ناراضگی کا سبب ھے کہ جو وہ مانگتے ھیں تم انکو لا کر دیتے ھو ۔۔

نوجوان کہنے لگا کہ میں آپکی بات نہی سمجھ پایا تھوڑی سی وضاحت کر دیں ۔۔

عالم دین فرمانے لگے: بیٹا کیا کبھی تم نے غور کیا ھے کہ
جب تم دنیا میں نہیں آے تھے تو تمہارے آنے سے پہلے ھی تمھارے والدین نے تمھارے لئے ہر چیز تیار کر رکھی تھی ۔
تمھارے لئے کپڑے ۔
تمھاری خوراک کا انتظام
تمھاری حفاظت کا انتظام
تمہیں سردی نہ لگے اگر گرمی ھے تو گرمی نہ لگے ۔
تمہھارے آرام کا بندوبست
تمھاری قضاے حاجت تک کا انتظام تمھارے والدین نے تمھاری دنیا میں آنے سے پہلے ھی کر رکھا تھا ۔۔
پھر آگے چلو ۔۔۔
کیا تمھارے والدین نے کبھی تم سے پوچھا تھا کہ بیٹا تم کو سکول میں داخل کروائیں یا نہ ۔
اسی طرح کالج یا یونیورسٹی میں داخلے کیلئے تم سے کبھی پوچھا ھو، بلکہ تمھارے بہتر مستقبل کیلئے تم سے پہلے ھی سکول اور کالج میں داخلے کا بندوبست کر دیا ھو گا ۔۔
اسی طرح تمھاری پہلی نوکری کیلئے تمھارے سکول کی ٹرانسپورٹ کیلئے تمھارے یونیفارم کیلئے تمھارے والد صاحب نے کبھی تم سے نہیں پوچھا ھو گا بلکہ اپنی استطاعت کے مطابق بہتر سے بہتر چیز تمھارے مانگنے سے پہلے ھی تمہیں لاکر دی ھو گی ۔۔
تمہہں تو شاید اسکا بھی احساس نہ ھو کہ جب تم نے جوانی میں قدم رکھا تھا تو تمھارے والدین نے تمھارے لئے ایک۔اچھی لڑکی بھی دھونڈنی شروع کر دی ھو گی جو اچھی طرح تمھاری خدمت کر سکے اور تمھارا خیال رکھ سکے ۔۔۔
لڑکی تلاش کرتے ھوے بھی انکی اولین ترجیح تمھاری خدمت ھی ھوگی بلکہ انکے تو ذھن میں کبھی یہ خیال بھی نہی آیا ھو گا کہ ھم ایسی دلہن بیٹے کیلئے لائیں جو ھماری خدمت بھی کرے اور ھمارے بیٹے کی بھی ۔۔۔

تمھارے لئے کپڑے ۔تمھاری پہلی سائیکل۔تمھارا پہلا موٹر سائیکل ۔تمھارا پہلا سکول ۔تمھارے کھلونے ۔تمھاری بول چال ۔تمھاری تربیت ۔تمھارا رھن سہن چال چلن رنگ دھنگ گفتگو کا انداز ۔۔۔۔۔یہاں تک کے تمھارے منہ سے نکلنے والا پہلا لفظ تک تم کو تمھارے ماں باپ نے مفت میں سکھایا ھے اور تمھارے مطالبے کے بغیر سکھایا ھے ۔۔۔

اور آج تم کہتے ھو کہ۔جو کچھ وہ مجھ سے مانگتے ھیں میں انکو لا کر دیتا ھوں اسکے باوجود وہ۔خفا رھتے ھیں ۔۔۔

جاو والدین کو بن مانگے دینا شروع کرو ۔
انکی ضروریات کا خیال اپنے بچوں کی ضروریات کیطرح کرنا شروع کرو ۔۔

اگر انکی۔مالی مدد نہی کر سکتے تو انکو اپنا قیمتی وقت دو ۔انکی خدمت کرو ۔گھر کی۔ذمہ داریاں خود لو ۔۔جیسے اپنے بچوں کے باپ بنے ھو ویسے ھی اپنے والدین کی نیک اولاد بنو ۔۔اور انکو بن مانگے دینا شروع کرو ۔۔

اپنے آپ کو اس قابل بنا لو کہ انکو تم سے مانگنے کی یا مطالبے کی ضرورت ھی نہ پڑے ۔۔یا انکو کبھی تمھاری کمی محسوس ھی نہ ھو کم سے کم اتنا وقت تو انکو عطا کردو ۔۔۔۔انکو مسائل پوچھو ۔۔
اگر انکی مالی مدد نہیں کر سکتے تو انکی خدمت کرو

کیا کبھی ماں یا باپ کے پاوں کی پھٹی ھوئی ایڑیاں دیکھیں ھیں تم نے ؟؟
کیا کبھی ان کی پھٹی ھوئی ایڑیوں پر کوئی کریم یا تیل لگایا ھے جیسے وہ تم کو لگاتے تھے ؟؟

کیا کبھی ماں یا باپ کے سر میں تیل لگایا؟ حالانکہ جب تم بچے تھے تو وہ باقاعدہ تمھارے سر میں تیل لگا کر کنگھی بھی کرتے تھے ۔۔تمھای ماں تمھارے بال سنوارتی تھی کبھی ماں کے بال سنوار کر تو دیکھو ۔۔۔

کیا کبھی باپ کے پاوں دبائیں ھیں؟ حالانکہ تمھارے باپ نے تمہیں بہت دفعہ دبایا ھو گا ۔۔۔

کیا کبھی ماں یا باپ کیلئے ہاتھ میں پانی یا تولیہ لے کر کھڑے ھوے ھو؟ ۔جیسے وہ تمھارا منہ بچپن میں نیم گرم پانی سے دھویا کرتے تھے ۔۔۔۔

کچھ کرو تو سہی
انکو بغیر مانگے لا کر دو
انکی ذمہ داریاں اٹھا کر دیکھو ۔
انکو وقت دے کر دیکھو
انکی خدمت کر کے دیکھو ۔
انکو اپنے ساتھ رکھو 
انکو اپنے آپ پر بوجھ مت سمجھو اللہ کا انعام سمجھو
جسطرح انہوں نے تم کو بوجھ نہیں سمجھا بغیر کسی معاوضہ کے تمھاری دن رات پرورش کر کے معاشرے کا ایک کامیاب انسان بنایا ھے ۔کم سے کم انکی وھی خدمات کا صلہ سمجھتے ھوے ان سے حسن سلوک کا رویہ اختیار کرو ۔۔
پھر دیکھنا وہ بھی خوش اور اللہ بھی خوش ۔۔

عالم دین کی یہ باتیں سن کر نوجوان اشک بار ھوگیا اور باقی  حاضرین کی آنکھیں بھی نم ھو گئیں ۔۔
۔۔واقعی یہ حقیقت ھے کہ ایسی نصیحت آموز باتیں دنیا کی کسی بھی یونیورسٹی میں نہی مل سکتیں .انسان کو احساس اور والدین کی چاہتا ہونی چاہئے.

اللہ ہمارے والدین کا سایہ ھمیشہ قائم رکھے
اور ھر انسان کو یہ توفیق عطا فرمائے کہ وہ اپنے والدین کے مطالبے سے پہلے ھی انکی ضروریات کو سمجھتے ھوئے پایہ تکمیل تک پہنچا دے۔

آمین

No comments