اسلام ‏کے ‏عظیم ‏سپہ ‏سالار ‏. ‏..عقبہ ‏بن ‏نافع

Share:
عقبہ بن نافع اسلام کے( عظیم فرزند و سپہ سالار )
*عقبة بن نافع رضی اللہ عنہ کے بارےمیں یہ بات واضح نہیں کہ آپ نے صحابیت کی معراج کو پایا ہے ۔۔۔۔؟ لیکن اس حقیقت پر سب قائم ہیں آپ کی ولادت عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ہی ھوئی تھی ۔اسلام کے اس عظیم سپہ سالار اور خوف الہی کے عظیم تر پیکر کا ذکر شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے اپنی نظم "شکوہ " میں ایسی خوبصورتی سے کیا کہ آج بھی عقبہ بن نافع رضی اللہ عنہ کے گھوڑوں کی ٹاپوں کی ہیبت ناک آواز سنائی دیتی ہے ۔۔۔
عقبہ بن نافع رضی اللہ عنہ نے 622ء میں مکہ مکرمہ میں آنکھ کھولی
*اپنی زندگی کو اللہ کے دین کی سربلندی کےلئے وقف کردیا*
*اور اسلام کے جھنڈے  المغرب (موجودہ مراکش ) میں گاڑ دیئے*
*670 ء میں آپ نے مصر کے صحراؤں کو چیرتے ھوئے شمالی افریقہ تک پہنچ کر اھل مغرب کو اسلامی پرچم کے اگےجھکنے پر مجبور کر دیا.
*شمالی افریقہ میں مصر تو عہد عمر فاروق رضی اللہ کے دور خلافت میں ہی فتح ھو گیا تھا اور اس کے بعد لیبیا پر بھی قبضہ کر لیا تھا اور پھر مسلمانوں کا سامنا اھل مغرب (بربر) سے ھوا۔ بربر بڑی جنگجو قوم تھی مسلمانوں نے بربروں سے نہایت سخت لڑائیاں لڑی تھیں.
*معاویہ نے عقبہ بن نافع رضی اللہ عنہ کو افریقہ کا جنریل مقرر کیا ۔یہاں پر بربر قوم آباد تھی ان میں اکثر قبائل حضرت عقبہ بن نافع رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر حلقہ بگوش اسلام ھوئے ۔اور پھر افریقہ کی فتح میں عقبہ بن نافع کے ساتھ رہے۔افریقی ممالک فتح ھو جاتے تھے لیکن چونکہ وہاں پر لشکر اسلامی کی کوئی مستقل چھاؤنی نہیں تھی اس لئے لشکر اسلام جب واپس جاتا تو یہ عہد توڑ دیتے تھے اور دشمنانان اسلام کے ساتھ مل کر اھل اسلام کو نقصان پہنچاتے تھے
*حضرت عقبہ بن نافع رضی اللہ عنہ نے حفاظتی نقطہ نظر سے یہاں پر ایک چھاؤنی بنانے کا ارادہ کیا اور اسکے لئے ایسی جگہ کا انتخاب کیا جو اپنی ھیبت اور خوفناکی میں اپنی مثال آپ تھی یہ ایک گنجان جنگل تھا جو طرح طرح کے درندوں سے بھرا پڑا تھا وہاں کے مقامی لوگوں کے پسینے چھوٹ جاتے تھے جب وہ اس جنگل کا تصور کرتے تھے
*امیر لشکر حضرت عقبہ بن نافع رضی اللہ عنہ 18 یا 19 جلیل القدر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی اجمعین کو ساتھ لیا اور جنگل میں داخل ھو گئے۔حضرت عقبہ بن نافع رضی اللہ عنہ ایک ٹیلے چڑھ گئے اور یوں اعلان فرمایا کہ
اردو ترجمہ...
*(اے موذی درندو اور جانورو ' ہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام ہیں اور یہاں آباد ھونا چاھتے ہیں پس اب تم یہاں سے چلے جاو ۔لہذا اس اعلان کے بعد اگر ہمیں کوئی نظر آ گیا تو ہم اس مار دیں گے )*
*اللہ جانے اللہ کے اس ولی کے اعلان میں کیا تاثیر تھی کہ جانوروں کے گروہ اس جنگل سے نکلنے لگے چشم فلک نے دیکھا کہ شیر اور بھیڑیے اپنے بچوں کو منہ میں اٹھائے جنگل سے نکل رہے تھے ۔ بربر قوم جو اس جنگل سے اچھی طرح واقف تھی اسلام کی اس روشن دلیل کو دیکھ کر دائرہ اسلام میں داخل ہوئے.
*حیاتیات اور طبقات الارض کے ماہرین آج تک پریشان ہیں کہ عقبہ بن نافع رضی اللہ عنہ کے اعلان میں ایسا کیا تھا کہ جنگلی درندے بھی تابع دار ھو گئے ۔ مسلمانوں نے اس جنگل کو بسایا اور اس تاریخی شہر کا نام قیروان ہے جو 40 مربع میل پر پھیلا ہوا تھا اور آج بھی تیونس سے 160 کلومیٹر جنوب کی جانب واقع ہے.
*شمالی افریقہ کو فتح کرنے کے بعد جب عقبہ بن نافع رضی اللہ عنہ بحر اوقیانوس تک پہنچے تو فرط جذبات سے اپنے گھوڑے کو بحر اوقیانوس کے پانی میں ڈال کر کہنے لگے کہ*
*"اے اللہ اگر آج یہ سمندر میری راہ میں حائل نہ ھوتا تو دنیا کے آخری کونے تک تیرے نام کو بلند کرتا .

"دشت تو دشت ہیں صحرا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحر ظلمات میں دوڑا دیئے گھوڑے ہم نے"........
*عقبہ بن نافع رضی اللہ عنہ نے یہاں پر جامع مسجد کی بنیاد رکھی ۔ چونکہ یہ ایک گنجان آباد جنگل تھا اسلئے قبلہ کا تعین کرنا بڑا مشکل ہو جاتا تھا سب سمت قبلہ کے بارے میں متردد تھے ۔ کچھ عرصہ تک مسلمانوں نے نماز کی ادائیگی کے لئے تحری (قالب سوچ و بچار ) سے کام لیا ۔ایک شب حضرت عقبہ بن نافع رضی اللہ عنہ اسی پر فکر مند بیٹھے تھے کہ یکا یک ایک آواز سنائی دی ۔" کل صبح تم مسجد میں داخل ھونا تو تم کو تکبیر کی آواز سنائی دے گی تم اس طرف کو چلے جانا جس سمت اور جگہ پر آواز ختم ہو وہاں پر نشان لگانا اور سمت قبلہ کی دیوار تعمیر کرنا وہی سمت قبلہ ھو گی چنانچہ ایسے ہی ھوا ۔آج تک قیروان کی تمام مساجد کو اسی سمت پر تعمیر کیا جاتا ھے
*تاریخ اسلام کا یہ عظیم فاتح....اور جر نیل 683ء میں مفتوحہ علاقوں سے واپسی کے سفر میں مقامی بربر باغیوں کے ہاتھوں شہید ہو گیۓ
*اللہ تعالی آپ کے درجات بلند فرمائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔آمین

No comments