حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ
شیر خدا کے فیصلے۔۔
مدینہ منورہ میں ایک لڑکے کو گرفتار کرکے لے جارہے تھے ،اس لڑکے نے حضرت علی رضی اللّٰلہ عنہ کو دور سے دیکھ کر پکارا اور کہا کہ ” اے علی ابن ابی طالب مجھے بچاو¿۔حضرت علی رضی اللّٰلہ عنہ نے پوچھا کیا ہوا؟تو وہ لڑکا کہنے لگا
کہ اے علی رضی اللّٰلہ عنہ میں بے گناہ ہوں ،مجھے بے گناہی کے باوجود قتل کی سزا دی گئی ،مجھے بچاو¿ میں بے گناہ ہوں ۔
حضرت علی رضی اللّٰلہ عنہ نے پولیس کے آدمی سے پوچھا کہ کیا بات ہے ،تو اس پولیس کے آدمی نے کہا کہ اے علی رضی اللّٰلہ عنہ آپ کو معلوم نہیں کہ اس لڑکے نے اپنے مالک کو قتل کیا ہے اور مالک کے قتل کے بدلے میں اس کو قتل کیا جارہا ہے ۔حضرت علی رضی اللّٰلہ عنہ نے اس لڑکے سے پوچھا کہ بھائی تو نے مالک کو قتل کیا ہے ؟ اس لڑکے نے کہا کہ ہاں میں نے مالک کو قتل کیا ہے ،تو حضرت علی رضی اللّٰلہ عنہ نے فرمایا کہ پھر تو تیرا قتل اس قتل کے بدلے میں جائز ہے تو اس لڑکے نے کہا کہ جائز نہیں ہے ،
کیونکہ میرا مالک میرے ساتھ برائی کا ارادہ کرتا تھا ،
میری عزت پر وہ حملہ کرنا چاہتا تھا تومیں نے اپنی عزت کو بچانے کے لئے اس کو قتل کیا ہے اور حضور صلی اللّٰلہ علیہ وسلم کا حکم ہے کہ جو آدمی عزت کو بچانے کے لئے کسی کو قتل کردے تو اس کے بدلہ میں اس کو قتل نہیں کیا جاتا،سپاہی سے پوچھا واقعی اس نے یہ کہا سپاہی نے کہا کہ بات تو ٹھیک ہے لیکن اس کے پاس اس واقعہ کا کوئی گواہ نہیں ہے کہ وہ میرے ساتھ برائی کا ارداہ کرتا تھا،اس لئے خلیفہ وقت اور قاضی وقت نے یہ دیکھا کہ مالک قتل ہوگیا ،اب مالک تو چلا گیا ،اب کون بتائے کہ مالک نے اس کے ساتھ برائی کا ارادہ کیا تھا ،اس کا کوئی گواہ نہیں ہے ،اس لئے ہم نے اسے قتل کی سزا دی ہے،وہ لڑکا رونے لگا اور کہنے لگا واقعتا میرے مالک نے میرے ساتھ برائی کا ارداہ کیا تھا ۔
حضرت علی رضی اللّٰلہ عنہ حضرت عمر رضی اللّٰلہ عنہ کے پاس آئے اور آکر فرمایا کہ اے امیر المومنین آپ اس قتل کی تفتیش میرے سپر کردیں ۔حضرت علی رضی اللّٰلہ عنہ ”اقضھم علی “ تھے حضرت علی کے فیصلے بڑے گہرے ہوا کرتے تھے ۔حضرت عمر رضی اللّٰلہ عنہ نے فرمایا ٹھیک ہے ،اس قتل کی تفتیش آپ کریں ،اب حضرت علی رضی اللّٰلہ عنہ تفتیش کرنے کے لئے آئے اس لڑکے سے پوچھا بتا تیرے مالک کی قبر کہاں ہے ؟اس نے کہا فلاں قبرستان میں ہے ،حضرت علی رضی اللّٰلہ عنہ نے پولیس کے چند آدمیوں کو اپنے ساتھ لیا اور پولیس کے چند آدمیوں کے ہمراہ اس قتل کی تفتیش کے لئے قبرستان میں چلے گئے ،جب قبرستان پہنچے تو پولیس کے آدمیوں سے کہا کہ اس کے مالک کی قبر کھودو ،جب انہوں نے قبر کھودی تو قبر میں اس کے مالک لاش نہیں تھی ،جب اس کی قبر میں مالک لاش نظر نہ آئی تو حضرت علی رضی اللّٰلہ عنہ واپس آگئے اور حضرت عمر رضی اللّٰلہ عنہ سے آکر کہا کہ امیرالمومنین یہ لڑکا سچا ہے.
وہ مالک واقعی اس کے ساتھ برائی کا ارادہ رکھتا تھا ۔حضرت عمر رضی اللّٰلہ عنہ نے فرمایا کہ تمھارے پاس کیا دلیل ہے ؟ تو حضرت علی رضی اللّٰلہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے حضور صلی اللّٰلہ علیہ وسلم سے یہ حدیث سنی ہے کہ جو آدمی لڑکوں سے برائی کا ارادہ کرتا ہے جب اس کا انتقال ہوجاتا ہے اور اس کو قبر میں ڈالا جاتا ہے تو اس کی لاش کو اُٹھا کر قوم لوط کے قبرستان میں بھیج دیا جاتا ہے ،تو اس لئے جب ہم نے اس کی قبر کریدا تو اس قبر کے اندر اس کا مالک نہیں تھا ،جبکہ ابھی چند دن پہلے اس کو دفن کیا گیا تھا ،اس لئے واقعی اس کا مالک اس کے ساتھ برائی کا ارادہ کرتا ہوگا ،اس شک کا فائدہ دیتے ہوئے اس لڑکے کو بری کیا جاتا ہے ۔اس موقع پر حضرت عمر رضی اللّٰلہ عنہ نے فرمایا تھا ” لولا علی لھلک عمر “ اگر آج علی رضی اللّٰلہ عنہ نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوجاتا ۔
ایک دوسرا واقعہ کہ مدینہ کی گلیوں میں ایک نوجوان لڑکا یہ کہتا ہے کہ لوگو میری جان بچاؤ میں مررہا ہوں ،مجھ پر ناجائز حد قصص لگائی جارہی ہے ۔(حدقصص اس کو کہتے ہیں کہ کوئی آدمی کسی پر تہمت لگائے ۔جھوٹی تہمت ہو تو اس کو (۰۸) اسی کوڑوں کی سزا شریعت میں دی جاتی ہے )جب اس نے دہائی دی تو حضرت علی رضی اللّٰلہ عنہ کو پتہ چلا ،حضرت علی رضی اللّٰلہ عنہ نے اس سے پوچھا کیا ہوا ؟ وہ لڑکا کہنے لگا کہ جو عورت سامنے آرہی ہے ،یہ عورت میری ماں ہے ،میں اس کو ماں کہتا ہوں اور یہ کہتی ہے تو میرا بیٹا نہیں ،اس لئے مجھ پر قصص کی حد لگائی جارہی ہے ،جبکہ میں اس عورت کا لڑکا ہوں ۔حضرت علی رضی اللّٰلہ عنہ نے اس عورت سے پوچھا کہ بتاو¿ واقعی یہ تیرا لڑکا ہے ،
اس عورت نے کہا کہ میں تواس کو جانتی ہی نہیں ہوں ،میں نے اس کو کبھی دیکھا نہیں ۔اب بات سنگین ہوگئی اور لڑکے نے اونچی اونچی آواز کے ساتھ رونا شروع کردیا ،اور کہنے لگا کہ میں قسم کھاکر کہتا ہوں کہ یہ عورت میری ماں ہے اور عورت کہتی ہے کہ میں نے اس کو دیکھا تک نہیں ہے ۔بات بڑی عجیب ہے ۔اس عورت کے بھائی اس کے ساتھ ہیں اور تہمت کیا تھی کہ جب ایک پاکباز عورت پر کوئی یہ الزام لگائے کہ فلاں لڑکا فلاں عورت کا بیٹا ہے اور اس عورت کا ابھی تک نکاح نہ ہوا ہو ،تو گویا کہ اس نے اس عورت پر تہمت لگادی کہ یہ کسی آدمی کیساتھ اسکا تعلق ہوا ہے ۔اب عورت کہتی ہے کہ آج تک میں نے شادی نہیں کی ،اس کے بھائی کہتے ہیں کہ کوئی مرد آیا نہیں ،اور یہ لڑکا کہتا ہے کہ میں اس کا لڑکا ہوں تو اس نے ہماری کنواری بہن پر تہمت لگائی ہے ۔اس لئے ہم نے اسے (۰۸) اسی کوڑوں کی سزا کے لئے مقدمہ دائر کیا ہے اور امیر المومنین حضرت عمرفاروق رضی اللّٰلہ عنہ کی عدالت نے اس کو (۰۸) اسی کوڑوں کی سزادی ہے ۔اب حضرت علی رضی اللّٰلہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللّٰلہ عنہ کے پاس آکر کہا اے امیرالمومنین اس حد کی تفتیش میرے سپر کردی جائے ۔حضرت عمر رضی اللّٰلہ عنہ نے فرمایا ٹھیک ہے ۔
حضرت علی رضی اللّٰلہ عنہ اس کی تفتیش کرنے لگے مسجد کے باہر لوگ بیٹھ گئے ،وہ عورت بھی بیٹھ گئی اور وہ لڑکا بھی بیٹھ گیا ۔حضرت علی رضی اللّٰلہ عنہ نے اس لڑکے سے کہا کہ جو فیصلہ میں کروں گا تجھے منظور ہے،اس نے کہا بالکل منظور ہے تو پھر حضرت علی رضی اللّٰلہ عنہ نے فرمایا لکھ دے ،اس نے لکھ دیا ۔اب حضرت علی رضی اللّٰلہ عنہ نے اس عورت سے کہا کہ جو فیصلہ میں کروں وہ تجھے بھی منظور ہے ،اس نے کہا منظور ہے ،حضرت علی رضی اللّٰلہ عنہ نے فرمایا تو بھی لکھ دے ،دونوں نے لکھ دیا ۔اب حضرت علی رضی اللّٰلہ عنہ کا فیصلہ دیکھو ۔حضرت علی رضی اللّٰلہ عنہ نے لڑکے سے کہا کہ واقعی یہ تیری ماں ہے؟اس لڑکے نے کہا ہاں ۔عورت سے کہا واقعی یہ تیرا بیٹا نہیں ،اس عورت نے کہا نہیں ،حضرت علی رضی اللّٰلہ عنہ نے کہا کہ واقعی تم غیر ہو؟ عورت نے کہا بالکل غیر ہیں ۔اب حضرت علی رضی اللّٰلہ عنہ نے اس لڑکے کا بازو پکڑ کر کہا میں نے اس عورت کا نکاح پانچ سو درہم کے بدلے میں تیرے ساتھ کردیااور کہا کہ جاو¿اس عورت کو لے جاو¿ اور دونوں میاں بیوی آپس میں تعلقات قائم کرو۔جس وقت اس لڑکے نے اس عورت کا ہاتھ پکڑا اور پکڑ کر وہ اس عورت کو لے جانے لگا تو وہ عورت چیخ کرکہنے لگی ،
اے علی رضی اللّٰلہ عنہ ماں کا نکاح بیٹے کیساتھ کیسے ہوسکتا ہے ۔اب اس عورت سے پوچھا گیا کہ تواب مان گئی کہ میرا بیٹا ہے ،تو نے جھوٹ کیوں بولا ؟ اس عورت نے کہا کہ میرا خاوند بڑا امیر تھا اس کی کافی جائیداد تھی اس سے صرف یہ ایک لڑکا تھا ،میرے بھائی میری شادی کسی اور جگہ کرنا چاہتے تھے اور ساری جائیداد کو ہڑپ کرنا چاہتے تھے ،اگر یہ لڑکا میرا ثابت ہوتا تو جائیداد ساری اس کے پاس چلی جاتی ،جائیداد کو ہڑپ کرنے کے لئے ہم نے یہ ڈرامہ رچایا ہے۔اس عورت کا قصور ثابت ہوگیا اور لڑکا بری ہوگیا۔(ماخوذ ازخطباتِ فاروقی ؒ جلد دوم )
No comments