دوسرا حصہ۔ تبت کی تاریخ
تبت کی کہانی۔۔۔۔جنتِ ارضی سے محاذِ جنگ تک!!!
(تحریر و تحقیق : ستونت کور)
تبت Tibet , جسے Roof of the world دنیا کی چھت بھی کہا جاتا ہے دنیا کا سب سے بلند اور دشوار گزار خطہ ہے ۔
تعارف :
تبت کے چینی زیرِ انتظام رقبے کو Xizang بھی کہا جاتا ہے۔۔۔اس کا دارالحکومت Lahsa ہے۔
تبت کا رقبہ 1,228,400 مربع کلومیٹر اور آبادی 37 لاکھ کے قریب ہے۔
تبت کی کہانی۔۔۔۔جنتِ ارضی سے محاذِ جنگ تک!!! ۔۔۔ دوسرا و آخری حصہ۔
(تحریر و تحقیق : ستونت کور)
6 اکتوبر 1950 کو اس چامدو میں اس جنگ کے پہلے معرکے کا آغاز ہوا۔
چامدو چین-تبت سرحد کی پہلی ریاست تھی اور یہاں 40 ہزار چینی سپاہیوں کا سامنا 8500 تبتی فوجیوں سے تھا ۔۔۔۔ جدید اسلحہ اور بہترین تربیت سے لیس چینی فوج نے 24 اکتوبر تک جاری رہنے والے اس معرکے میں کامیابی حاصل کی ۔ 114 چینی فوجیوں کی ہلاکت کے ساتھ 180 تبتی فوجی بھی مارے گئے اور 3 ہزار تبتی فوجیوں نے ہتھیار ڈال دیے ۔۔۔ باقی تبتی اہلکار پسپا ہوکر اندرون تبت کے پہاڑی علاقوں میں روپوش ہوتے چلے گئے۔
چامدو میں تبتی فوج کے ساتھ 6 عدد برطانوی ایڈوائزر اور 1 ریڈیو آپریٹر "رابرٹ فورڈ" بھی موجود تھا۔۔۔۔ گرفتاری سے قبل انہوں نے لاہسا میں یہ پیغام نشر ٹرانسمٹ کردیا کہ چینی فوج چامدو پر قابض ہو چکی ہے اور اب لاہسا کی طرف پیش قدمی کررہی ہے۔
تبت کی پرامن اور افسانوی حسن کی حامل سرزمین کو اب میدانِ جنگ بننے سے کوئی نہیں روک سکتا تھا۔۔۔۔۔۔۔
۔
چامدو کے سقوط کی خبر لاہسا پہنچتے ہی تبتی حکومت بےچینی کا شکار ہوگئی۔۔۔فیصلہ کیا گیا کہ دلائی لامہ کو تبت کے شاہی خزانے سمیت لاہسا سے نکال کر تبت-بھارت سرحد کے ایک دوردراز مگر محفوظ علاقے میں بھیج دیا جائے تاکہ وہ چینی فوج کے ہاتھوں گرفتار نہ ہوسکے۔
۔
اب 20 ہزار کے قریب افرادی قوت کی حامل چینی افواج شمال اور مشرق کی سمت سے لاہسا کا گھیراؤ کررہی تھیں اور چامدو کے بعد انہیں باقی سفر کے دوران کسی مزاحمت کا سامنا نہ کرنا پڑا تھا.
24 اکتوبر کو چینی افواج لاہسا میں داخل ہوگئیں اور تبتی حکومت کا خاتمہ ہوگیا ۔
اس وقت لاہسا کی آبادی 50 ہزار جبکہ نووارد چینی فوجیوں کی تعداد 20 ہزار تھی ۔۔۔۔ اور ان سب فوجیوں کو وہاں قیام کے لیے تین وقت کی خوراک ، گھوڑوں کے لیے چارے اور اپنے لیے رہائش کی بھی ضرورت تھی ۔
اب لاہسا کے لوگوں کے لیے غربت ، افلاس قحط و بھوک کے ایک نئے دور کا آغاز ہوگیا ۔
ظاہر ہے 20 ہزار چینی فوجیوں نے وہیں سے کھانا ، پینا اور دیگر ضروریات پوری کرنا تھیں تو لاہسا کے اصل باشندوں کے لیے خوراک اور ان کے مویشیوں کے لیے چارا کم سے کم ہوتا چلا گیا۔
۔۔۔
دلائی لامہ روپوش ہوچکا تھا ۔
لیکن بدھ مت میں دوسری اہم مذہبی و سیاسی شخصیت جسے "پنشن لامہ" Pnchen Lama کہا جاتا ہے وہ ابھی تک تبت کے شگاتسی Shigatse نامی شہر میں موجود تھا ۔
لیکن پنشن لامہ اس وقت محض ایک بچہ تھا ، میچور نہ تھا اور اس کا سارا کام اس کے ساتھی لاما ہی چلاتے تھے ۔۔۔۔۔ لاہسا کے سقوط کے بعد اب پنشن لامہ ہی تبت کا قائم مقام لیڈر تھا ۔
چنانچہ چینی حکومت نے اس سے، یعنی اس کے ایڈوائزرز سے رابطہ کیا اور اس طرح پنشن لامہ نے چین کی ، اور تبت پر چینی حکومت کی حمایت کا اعلان کردیا ۔
۔
چین-تبت معاہدہ:
روپوش دلائی لامہ کو جب روپوشی میں یہ خبر ملی کہ 14 سالہ پنشن لامہ نے تبت پر چینی تسلط کو تسلیم کرلیا ہے تو اس نے بھی روپوشی ختم کرکے واپس لاہسا لوٹنے کا فیصلہ کیا۔۔۔چند ماہ بعد دلائی لامہ واپس لاہسا پہنچ چکا تھا ۔
23 مئی 1951 کو بیجنگ میں چینی حکومت-دلائی لامہ کے ترجمانوں درمیان ایک 17 نکاتی معاہدہ عمل میں لایا گیا جس میں تبتی زبان ، ثقافت ، مذہب اور تبتی قوم کی حفاظت کو یقینی بنانے کے عوض تبت پر چینی حکومت کو تسلیم کر لیا گیا۔
اس دوران مغربی ممالک کا مکمل دھیان کوریا میں جاری جنگ پر تھا ۔۔۔ اس لیے تبت کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے اکیلا چھوڑ دیا گیا۔
۔۔۔۔۔۔
نیا تبت :
بیجنگ معاہدے کے بعد اب دلائی لامہ کی حیثیت محض ایک کٹھ پتلی کی سی رہ گئی تھی اور تبت پر اصل حکمرانی چین کی تھی۔
تبت کی غریب آبادی کا وہ حصہ کہ جو نسل در نسل مضارع کے طور پر کام کرتے آئے تھے انہوں نے تبت میں چینی انقلاب کو بیحد خوشدلی سے قبول کیا کیونکہ اب وہ مضارع نہیں بلکہ آزاد شہری تھے اور ان کے سابق مالکان کی زمینوں کو نئی انتظامیہ نے زمینداروں سے بازیاب کروا کے ان زمینوں میں ان سابق مضارعوں کو بھی حصہ دینے کا آغاز کر دیا تھا ۔
تبت میں اب تک ایک سکول بھی موجود نہ تھا ۔۔۔ چینی حکومت نے تبت میں سڑکوں اور پبلک انفراسٹرکچر کی تعمیر کے ساتھ ساتھ سکولز اور ہسپتالوں کی تعمیر کا بھی آغاز کردیا ۔
یوں لگ رہا تھا کہ قدیم اور پسماندہ تبت اب جدید دنیا کا حصہ بننے جارہا ہے ۔
لیکن یہ خواب بھی جلد ایک سراب میں بدلنے والا تھا۔
11 جولائی 1954 ، کو ماؤ زیدونگ کی دعوت پر دلائی لامہ اور پنشن لامہ نے بیجنگ کے لیے تختِ سفر باندھا۔۔۔۔۔ کہنے کو تو اس دورے کا مقصد دو طرفہ تعلقات کو بہتر بنانا اور تبت کی ترقی و خوشحالی کے نئے باب کا آغاز کرنا تھا ۔
لیکن۔۔۔۔ حقیقت میں یہ دعوت کم جبکہ حراست زیادہ تھی۔
بیجنگ میں کئی ماہ کے قیام کے دوران دلائی لامہ و پنشن لامہ کو کئی اہم مقامات کا وزٹ کروایا گیا ، بہت سی اہم کانفرنسز میں شرکت کروائی گئی ، ساتھ ہی بےشمار اعلیٰ افسران و دیگر اہم شخصیات کے ساتھ ان کی ملاقات کروائی گئی ۔
جبکہ تبت میں چینی حکومت ایک نئی مہم کا آغاز کررہی تھی اور وہ تھا تبت کا مذہبی و ثقافتی تشخص ختم کرکے اسے کمیونسٹ اقدار کے مطابق چین میں ڈھال دینا ۔
ایک طرف جہاں تبت کے طول و عرض میں سڑکوں اور نئے راستوں کی تعمیر جاری تھی تو دوسری طرف تبت میں سینکڑوں بودھ سٹوپوں میں موجود لاکھوں مذہبی کتب اور طوماروں کو چینی حکومت نے ضبط کرلیا۔۔۔۔ جن میں سے اکثریت کو نذر آتش کردیا گیا جبکہ باقیوں کو بیجنگ بھجوا دیا گیا ۔۔۔۔ ان کتب میں تبت کی کئی صدیوں کی تاریخ، مذہبی اور دیگر کئی متعلقہ موضوعات پر تحریری مواد موجود تھا۔۔۔جو کہ اب ضائع ہوچکا تھا ۔
۔
دوسرا قدم چینی حکومت نے یہ اٹھایا کہ تبت میں نئے کھولے جارہے سبھی سینکڑوں سکولوں میں چینی زبان کی تعلیم کو لازمی قرار دے دیا جبکہ نصاب کا اکثر حصہ بھی چینی زبان پر ہی مشتمل تھا ۔۔ تبتی زبان کو بری طرح سے نظر انداز کیا جانے لگا اور آنے والی چند دہائیوں میں تبتی زبان تبت میں محض چند بودھ سٹوپوں تک ہی محدود ہو کر رہ جانے والی تھی۔
۔
تیسرا قدم جو چینی حکومت نے اٹھایا وہ یہ تھا کہ تبت کے پرچم ، تبتی قوم کے نشانات و علامات اور بدھ مت کی مذہبی علامات کو لاہسا سمیت پورے تبت سے غائب کرکے ۔۔۔ ان کی جگہ چین کا پرچم، کمیونزم کی تعلیمات پر مبنی اقوال اور نعرے اور ماؤ زیدونگ کی تصاویر لگانا شروع کر دی گئیں۔۔۔ تمام اہم عمارات کی دیواروں تک سے تبتی علامات کو کھرچ کر ختم کردیا گیا یا ان پر چونا لگا کر انہیں مٹادیا گیا اور لاہسا کی ہر گلی اب چینی پرچموں ، ماؤ کی تصاویر اور کیمونسٹ نعروں سے سج چکی تھی۔
۔
اس سب کے دوران، چین نے بھارت کی سرحد تک طویل اور مظبوط سڑکوں کی تعمیر کے علاؤہ اندرون چین کو تبت سے ملانے والے کئی راستوں پر بھی کام مکمل کرلیا جبکہ دلائی لامہ اور پنشن لامہ اس سب سے بے خبر بیجنگ میں تھے۔
آخر کار ایک سال کے قریب وقت بیجنگ میں گزارنے کے بعد دلائی لامہ کو تو واپس لاہسا جانے کی اجازت مل گئی لیکن پنشن لامہ کو چینی حکام نے اپنے پاس ہی رکھ لیا۔۔۔۔تقریباً ایک یرغمال کے طور پر۔
دلائی لامہ جب واپس تبت پہنچا ۔۔۔ تو اس کا تبت اب بہت بدل چکا تھا۔۔۔ اور یہ تبدیلی اب بھی تیزی سے جاری و ساری تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1956 ۔ نہرو کی دعوت پر دلائی لامہ نے گوتم بدھ کے جنم دن کی تقریبات میں شرکت کے لیے بھارت کا دورہ کیا۔
اب دلائی لامہ کی حیثیت محض ایک مذہبی راہنما کی سی تھی جس کے پاس کسی شعبے کے کوئی اختیارات نہ بچے تھے۔
اس دورے کے دوران دلائی لامہ نے بھارتی حکومت سے درخواست کی کہ وہ چینی استعمار کے خلاف تبت کا ساتھ دیں ۔
لیکن بھارت نے اس درخواست کو مسترد کردیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تبت میں اب چینی قبضے کے خلاف عوام کی بےچینی تیزی سے بڑھتی جارہی تھی ۔
تبتی عوام صدیوں سے کٹر مذہبی اور بدھ مت کے پیروکار تھے جبکہ اب نئی حکومت ان کے مذہبی تشخص کو مسلسل تباہ کرتی جارہی تھی ۔
4 سال میں تبت میں بیسیوں سٹوپوں اور دیگر مذہبی عمارات کو مسمار کیا جاچکا تھا۔۔۔۔سینکڑوں بدھ بھکشوؤں اور راہنماؤں کو گرفتار کرلیا گیا تھا اور تمام مذہبی اداروں کے سبھی اثاثہ جات بشمول زمینوں کو ضبط کرلیا گیا تھا۔۔۔۔ یہاں تک کہ اب بدھ مت کی کچھ عبادات اور رسومات پر بھی سرکاری طور پر پابندی عائد کی جانے لگی تھی۔
نتیجتاً چینی حکومت کے خلاف تبت میں نفرت کا لاوا مسلسل ابلتا جارہا تھا جوکہ کبھی بھی آتش فشاں بن کے پھٹ سکتا تھا ۔
آئے دنوں اب تبت میں دنگے فسادات کی خبریں آنا شروع ہوگئیں تھیں چینی فوج، پولیس اور تبتی شہریوں کے درمیان جھڑپیں ، پتھراؤ ، توڑ پھوڑ ، آتشزدگی کے واقعات اور پھر گرفتاریوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہر گزرتے دن کے ساتھ زور پکڑتا جارہا تھا۔
1950 کی جنگ کے بعد جو چند ہزار تبتی فوجی فرار ہوکر پہاڑوں میں جا چھپتے تھے وہ اب خود کو منظم کررہے تھے ۔۔۔۔ چینی حکومت سے بھاگنے والے شہریوں کو اپنی صفوں میں شامل کررہے تھے ۔۔۔ اور اسی طرح ان کو بھی چینیوں کے خلاف لڑنے کے لیے تربیت دے رہے تھے۔
صاف ظاہر تھا کہ تبت میں چین کے خلاف مزاحمت اب نہ صرف زور پکڑتی جارہی ہے بلکہ منظم اور مظبوط بھی ہورہی ہے.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1959 بغاوت :
10 مارچ 1959 کو 20 ہزار کے قریب تبتی جنگجوؤں نے طے شدہ پلان کے تحت تبت میں درجنوں مقامات پر چینی تنصیبات پر حملہ کردیا ۔
اب کی بار وہ بہتر اسلحے اور تربیت سے لیس تھے۔۔۔ گوریلہ جنگ کے ٹیکٹکس سے خوب آگاہ تھے ۔
ان کی مدد امریکہ ، بھارت اور تائیوان کررہے تھے۔
انہوں نے جا بجا چینی فوج کے قافلوں پر گھات لگا کر حملے کیے۔ پولیس اور فوجی تنصیبات کو حملوں کا نشانہ بنایا اور چینی و چین نواز عناصر کی ٹارگٹ کلنگ کا آغاز کر دیا ۔
جنگجوؤں کی اکثریت سابق بدھ بھکشوؤں پر مشتمل تھی۔
ساتھ ہی تبتی عوام نے بھی لاہسا میں چینی کنٹرول کے خلاف زبردست پر تشدد مظاہروں کا آغاز کر دیا۔
جواب میں چینی حکومت نے بھی جنگجو اور عوام کا فرق کیے بنا پوری طاقت کے ساتھ تبت ہر جوابی حملہ کردیا ۔۔۔۔ بالخصوص لاہسا کا تو ایک ایک چپہ چینی عتاب کا نشانہ بنا ۔
چینی فوج نے لاہسا میں بلا دریغ تبتیوں کاقتلِ عام کیا اور چند ایک کو چھوڑ کر سبھی عبادت گاہوں کو بھی مسمار کردیا ۔۔۔ ہر وہ شخص جس کا کسی بودھ سٹوپے یا کسی بودھ مذہبی تنظیم سے کوئی بھی تعلق تھا اسے گرفتار کرلیا گیا ۔
کسی بھی شخص ہر جنگجو یا انقلابی ہونے کا شک ہونے پر اسے یا تو قتل یا پھر گرفتار کر لیا جاتا ۔
مظاہرے میں شامل سبھی افراد کے گھر ، زمینیں اور تمام اثاثہ جات ضبط کرلیے گئے۔
23 مارچ 1959 تک تبت میں مزاحمت کا خاتمہ ہوچکا تھا ۔ 2 ہزار چینی فوجیوں کے ساتھ ساتھ 87000 تبتی شہری اور جنگجو بھی مارے گئے یا گرفتار کرلیے گئے۔
بچے ہوئے جنگجو پھر سے فرار ہوکر واپس پہاڑوں میں روپوش ہوگئے ۔
بغاوت مکمل طور پر ناکام رہی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
31 مارچ 1959، ہفتوں سے لاپتہ دلائی اپنے ساتھیوں سمیت طویل سفر طے کرنے کے بعد بھارت پہنچ چکا تھا۔
تب سے لے کر اب تک دلائی لامہ بھارت میں ہی جلا وطنی کی زندگی جی رہا ہے۔
اس کرائسس کے دوران ہزاروں تبتی شہری بالخصوص وہ شہری جو چین مخالف سرگرمیوں کے باعث مفرور تھے وہ بھی تبت سے نقل کرکے بھارت پہنچ چکے تھے ۔
اور اب دلائی لامہ ان تبتی تارکین وطن کے ساتھ مل کر تبت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مخالف مہم کا آغاز کررہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1962 جنگ :
جیسا کہ میں گزشتہ پارٹ میں بتا چکی کہ تبت- ہندوستان سرحد کے کئی علاقے عرصہِ دراز سے متنازعہ چلے آرہے تھے ۔۔۔۔اب جبکہ چین تبت پر قابض ہوچکا تھا تو وہ ان علاقوں کی بازیابی اور اپنی مرضی کے بارڈر کے ترتیب کے لیے بھارت کے خلاف جنگ کی تیاری کررہا تھا۔
چین کو بھارت پر 1959 بغاوت کی حمایت کا بھی غصہ تھا اور دلائی لامہ کو پناہ دینے پر بھی چین بھارت سے نالاں تھا ۔
چنانچہ اس کشیدگی کے چلتے 20 اکتوبر 1962 کو چین نے بھارت پر حملہ کردیا ۔
اس جنگ میں 22000 ہندوستانی فوجیوں کا سامنا 80000 چینی فوجیوں سے تھا۔
بہترین ہتھیاروں ، سابقہ جنگی تجربات ، عمدہ تربیت اور جنگی مہارتوں سے لیس چینی فوج نے اس جنگ میں بھارتی افواج کو بری طرح سے روند کے رکھ دیا ۔۔۔۔ سوائے ایک آدھ محاذ کے بھارتی فوج کسی مقام پر بھی ثابت قدمی سے نہ لڑ پائی۔۔۔۔ چینی فوج کی پیش قدمی بہت منظم اور تیز تھی۔
امریکہ اور اس کے اتحادی اس وقت کیوبا اور جرمنی کے مسائل میں پھنسے ہوئے تھے ۔۔۔ چنانچہ بھارت کو اکیلا چھوڑ دیا گیا ۔
اس جنگ میں 700 چینی فوجیوں کی موت کے ساتھ 5000 بھارتی فوجی مارے گئے۔۔۔۔3900 بھارتی فوجیوں کو چین نے گرفتار کرلیا۔۔۔۔ ہزاروں بھارتی فوجی مفرور، منحرف یا پسپا ہوگئے ۔
چین نے اس جنگ میں بھارت سے بیسیوں اہم اور سٹریٹجک مقامات سمیت سینکڑوں مربع کلومیٹر کا علاقہ چھین لیا ۔۔۔ بلکہ کئی ایسے علاقوں پر بھی قبضہ کرلیا جوکہ پہلے نہ تو چین کے دعوے میں شامل تھے نہ ہی چین کے اس جنگی مشن کا حصہ تھے ۔
آج تک یہ سبھی علاقے چین کے زیر انتظام ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1960 کی دہائی کا تبت :
تبت پر اپنا کنٹرول بحال کرنے کے بعد چینی حکومت نے تبت کو مکمل طور پر چین میں ڈھال دینے اور اس کے جداگانہ تشخص کو مٹانے کا سلسلہ جاری رکھا ۔
اب کی بار چینی حکومت ہر سال دسیوں ہزار چینی شہریوں کو چین سے لا کر تبت میں آباد کررہی تھی ۔ انہیں وہ زمینیں اور گھر الاٹ کیے جارہے تھے جو حکومت نے بدھ مت عناصر سے ضبط کیے تھے۔
ساتھ ہی تبتی شہریوں کی بھارت کی طرف نقل مکانی کا سلسلہ بھی جاری تھا۔۔۔ اس دوران 1 لاکھ کے قریب تبتی ، بھارت پہنچ کر وہاں آباد ہوئے۔
1965 میں امریکی CIA نے تبت میں ایک نئے خفیہ آپریشنز کا آغاز کیا ۔۔۔ اس کے تحت CIA ، بھارت سے تبتی تارکین وطن نوجوانوں کو امریکہ کے جا کر وہاں جدید عسکری اور گوریلہ تربیت سے آراستہ کرتی اور پھر ان تبتی کمانڈوز کو بھارت کے راستے امریکی طیاروں سے تبت میں پیراشوٹ کے زریعے اتار دیا جاتا تھا ۔۔۔ جہاں وہ چھوٹے گروپس کی شکل میں چینی فوج اور چینی حکومت کی تنصیبات پر حملے جاری رکھے ہوئے تھے۔
لیکن دلائی لامہ نے یہ کہتے ہوئے اس گوریلہ آپریشن کا رد کر دیا کہ یہ بدھ مت کی پر امن تعلیمات کے خلاف ہے۔
1970 کی دہائی میں لاکھوں چینی شہری چین سے تبت میں آباد ہوئے۔
یہاں تک کہ 1980 تک لاہسا میں چینیوں کی تعداد تبتیوں سے زیادہ ہوچکی تھی۔
1987 میں تبت ایک مرتبہ پھر تناؤ اور کشیدگی کی نئی لہر میں جکڑا گیا جب امریکی سینٹ میں تبت کے حق میں قرارداد منظور ہونے کے بعد تبت میں اس قرارداد اور دلائی لامہ کے حق میں مظاہروں کا آغاز ہوگیا جوکہ جلد ہی پرتشدد مظاہروں میں بدل گئے ۔۔۔ اس دوران کئی سال بعد پھر سے تبت میں تبتی پرچم لہرائے گئے۔
مظاہرین نے پھر سے سرکاری املاک پر توڑ پھوڑ کی اور کئی مقامات پر آتشزدگی کے واقعات بھی ہوئے ۔۔۔۔ چینی فورسز نے جواب میں مظاہرین پر زبردست کریک ڈاؤن کیا ۔
یہ مظاہرے وقفے وقفے سے پورے 1986 اور 1987 میں جاری رہے ۔ 1987 کے آخر تک چینی حکومت نے اس تحریک کو بھی کچل دیا ۔
۔۔۔۔۔۔
1989 میں دلائی لامہ کو امن کی خاطر اس کی کوششوں کے عوض نوبل انعام برائے امن سے نوازا گیا۔
۔
1990 کی دہائی میں تبت کافی پرامن رہا۔۔۔ اس دوران چین نے بھی تبت میں کافی نرم رویہ اختیار کیے رکھا۔ تبت میں عالمی معیار کے نئے تعلیمی ادارے کھولے گئے۔ تبت کو سیاحت کے لیے بیرونی دنیا پر کھولا گیا اور تبتی عوام کو زورگار کے نئے مواقع فراہم کیے گئے۔
بیسویں صدی کے اختتام تک تبت کافی حد تک پر امن ہوچکا تھا ۔
۔۔۔۔۔۔
موجودہ تبت :
✓ آج کا تبت پہلے کی نسبت کہیں پرامن ، خوشحال اور ماڈرن ہے۔
✓ تبت پر چین کا سخت گیر کنٹرول قائم ہے۔۔۔ازادی کے حامی تبتیوں کی گمشدگیوں ، گرفتاریوں اور قید و بند کا سلسلہ اب بھی جاری ہے ۔
✓ 2008 میں تبت آخری مرتبہ پرتشدد مظاہروں کی لہر سے گزا۔
✓ دلائی لامہ اب بھی زندہ ہے اور بھارت میں زندگی بسر کررہا ہے.
✓ تبتیوں اور دلائی لامہ کا رحجان اب تبت کی چین سے آزادی کے بجائے چین میں رہتے ہوئے ہی مزید حقوق اور شخصی آزادی کی طرف ہے۔
No comments