مغل شہنشاہ کا باورچی خانہ

Share:
اورنگزیب عالمگیر کے دور حکومت میں  باورچی خانے کی کہانی 
کہتے ہیں کہ اورنگ زیب عالمگیر رحمہ اللہ تخت شاہی پر بیٹهنے کے بعد بھی نہایت ساده اور محتاط زندگی بسر کی۔* 
 بادشاہ کے ذاتی باورچی کی بابت ظاہر ہے کہ بہت عزت و شہرت کی چیز سمجهی جاتی تهی۔ اس لئے بڑے بڑے ہنر مند باورچی بیحد شوق اور آرزو سے یہ خدمتِ خاص حاصل کرتے، مگر بعد میں حقیقت کهل جاتی کہ نپی تلی کهچڑی یا معمولی روٹی دونوں وقت پکتی اور تمام کی تمام بادشاہ سلامت کے سامنے دستر خوان پر چلی جاتی ہے، اور دستر خوان سے صاف برتن واپس آتے۔ یعنی باورچی کو اپنا پیٹ بهرنے کے لئے بهی کچھ نہیں ملتا۔ خشک تنخواہ پر گزارہ کرنا پڑتا۔ اس لئے چند ہی روز میں وه ملازمت ترک کر کے چلے جاتے یا شاہی مطبخ عام میں تبدیلی کرا لیتے۔
بار بار کے استعفوں سے تنگ بادشاہ نے نئے باورچی سے معاہده کیا کہ کم از کم ایک برس تک ملازمت میں رہنا پڑے گا، اور اس عرصہ میں استعفیٰ قبول نہ ہو گا۔ ناواقف باورچی نے خوشی سے معاہده کر لیا۔ مگر جلد ہی اس پر بهی حقیقت کهل گئی۔ اب باورچی مصیبت میں پڑ گیا، نہ گزر ہوتی نہ استعفیٰ دے سکتا۔ تنگ آ کر اس نے سوچا کہ بادشاہ کو اس قدر ناراض کرو کہ وه خود ہی نکال دے۔ لہٰذا اس نے کهچڑی میں زیاده نمک ڈال دیا۔ بادشاہ نے کهچڑی کها لی۔ باورچی کی طرف صرف نظر اٹها کر دیکها، مگر کہا کچھ نہیں۔ باورچی نے مایوس ہو کر اگلے دن بالکل نمک نہ ڈالا اور پهیکی کهچڑی پکائی۔ بادشاہ نے اس دن بهی کچھ نہ کہا۔ تیسرے دن باورچی نے صحیح مقدار نمک کی ڈالی۔ بادشاہ نے اس باورچی کو نظر اٹها کر دیکها اور نہایت تحمل سے فرمایا، میاں! ایک ڈهنگ اختیار کر لو، یا تو برابر کا نمک ہمیشہ یا بالکل پهیکی پکایا کرو، معتدل ذائقہ ہو، بار بار نمک کی مقدار بدلنے کی تکلیف مت اٹهاو۔ باورچی ہاتھ باندھ کر کهڑا ہو گیا اور کہا، جہاں پناہ! میں سات لڑکیوں کا باپ ہوں شاہی باورچی کہلاتا ہوں لوگوں کو مجھ سے بڑی توقعات ہیں۔ اور میری حالت یہ ہے کہ فاقوں مرتا ہوں۔ میں نے یہ سمجھ کر ملازمت کی تهی کہ جہاں پناہ کی ذاتی خدمت بجا لا کر کچھ عرصہ میں متمول ہوں گا، مگر اب سال بهر تک فاقہ ہی نظر آتا ہے۔ یہ تصدیق فرما کر خادم کو آزاد فرمایا جائے۔
بادشاہ نے پوچھا؛ آزادی کی خواہش ہے یا روپے کی ضرورت؟
عرض کیا روپے کی زیاده ضرورت ہے۔
کہا کہ اچها آج آدھ پاؤ کهچڑی زیاده پکا لینا۔
باورچی کچھ نہ سمجها اور آدھ پاؤ کهچڑی زیاده پکا لی۔ 

بادشاہ نے اپنا حصہ کهانے کے بعد باقی ماندہ کهچڑی کے سات حصے کئے ایک ایک طشتری میں ایک ایک حصہ ڈال کر خوان میں لگا کر کہا کہ ہمارے سات وزیروں کو ہمارا یہ تحفہ پہنچا دو۔ چونکہ آج تک وزیروں کو ایسا تحفہ نہیں ملا تها، وزیروں کو اس غیر معمولی شاہی التفات کی خبر لگی، تو ان کی خوشیوں کی کوئی انتہا نہ رہی۔ شاہی باورچی کا اپنے دروازوں پر بڑا استقبال ہوا اور شاہی تحفہ لانے کے صلہ میں ہر وزیر نے باورچی کو ایک ایک لاکھ روپے نقد رقم ادا کی۔
باورچی یہ سات لاکھ کی رقم اور کافی ساز و سامان کمانے کے بعد بادشاہ کی خدمت میں پیش ہوا۔
بادشاہ نے پوچها؛ کہو گزارے کی کوئی صورت نکل آئی؟
باورچی نے دست بستہ عرض کی کہ حضور کی توجہ کی بدولت اب عمر بهر کے لئے بےفکری ہو گئی۔ اب کوئی حاجت باقی نہ رہی۔
بادشاہ نے کہا؛ آئینده کهچڑی میں نمک صحیح انداز سے ڈالا کرنا۔"
(مساوات اسلام سے ایک اقتباس )

No comments