*حاتم طائی کون تھا
*حاتم الطائی عرب شہزادہ تھا* جس کا انتقال 578 سن عیسوی میں ہُوا، حاتم کا تعلق عرب کے طائی قبیلے سے تھا اور حاتم اپنی سخاوت کی وجہ سے بے انتہا مشہور ہُوا اور آج بھی اس کی سخاوت کے قصے زبان زد عام ہیں اور انہیں قصوں میں سے ایک قصہ یہاں اس کہانی میں شامل کیا جارہا ہے تاکہ ہم سب کو اچھا کردار تشکیل دینے میں رہنمائی حاصل ہو۔
کہا جاتا ہے کہ حاتم کی سخاوت کا چرچا ہر زبان زد عام پر تھا اور لوگ حاتم کی دانائی سے علم حاصل کرتے تھے ایک دفعہ چند عرب سرداروں نے حاتم سے پُوچھا ” کیا کبھی تُم نے دُنیا میں اپنے سے زیادہ ہمت والے کو بھی دیکھا؟”۔
حاتم نے جواب دیا “ہاں، میں نے ایک دفعہ ارادہ کیا کے عرب کے مالداروں اور غریبوں کو کھانے کی دعوت دُوں اس مقصد کے لیے میں نے 40 اونٹ قُربان کیے اور اُن کو پکانے کے لیے لکڑیاں اکھٹی کرنے خود جنگل چلا گیا”۔
پھر حاتم بولا” میں نے جنگل میں ایک لکڑ ہارے کو دیکھا جو لکڑیاں اکھٹی کرکے اُنہیں اپنے گھٹے میں جمع کرتا جارہا تھا، میں نے اُس سے کہا تُم آج کے دن اتنی محنت کیوں کر رہے ہو ؟” لکڑ ہارے نے جواب دیا ” کیوں آج کیا کوئی خاص دن ہے کہ محنت نہ کی جائے”۔
حاتم بولا ” آج شہر کے امیر آدمی حاتم الطائی کے دستر خوان پر پُورے شہر کی دعوت ہے اور ہر خاص و عام مدعو ہے اور اس دعوت کے لیے حاتم نے چالیس اُونٹ قُربان کیے ہیں جن سے آج بہت ہی مزے مزے کے پکوان پکیں گے تُم بھی اپنی یہ لکڑیاں اکھٹی کرنی بند کرو اور آج کا دن حاتم کے دستر خوان پر خوب سیر ہوکر کھاؤ اور اپنے بچوں کے لیے کھانا لیکر جاؤ”۔
لکڑ ہارے نے حاتم کی بات سُنی تو مُسکرایا اور واپس اپنی لکڑیاں اکھٹی کرنے لگا اور بولا ” میں محنت مزدوری کرتا ہُوں اور اپنے ہاتھوں سے اپنی اور اپنے بچوں کی روزی کما سکتا ہُوں، اور جس پر اللہ نے اتنا احسان کیا ہوکہ وہ اپنے ہاتھوں سے اپنی اور اپنے بچوں کی پرورش کر رہا ہو اُسے بھلا حاتم کا احسان اُٹھانے کی کیا ضرورت ہے”۔
یہ بات کہہ کر لکڑ ہارا چلا پڑا حاتم بولا ” میں نے اُسے پیچھے سے آواز دی اور کہا کہ بڑا غرور ہے تمہیں اپنی محنت پر” تب لکڑہارا پیچھے مُڑا اور بولا” جن کے ہاتھوں پر محنت اور حلال کمائی کے چھالے پڑے ہوں وہ غرور نہیں کرتے، وہ بس فخر کرتے ہیں”۔
حاتم بولا” اُس دن مُجھے لگا کہ یہ لکڑ ہارامجھ سے ہی نہیں بلکہ شہر میں سب سے زیادہ ہمت والا انسان ہے”۔
No comments