جواب شکوہ
کلام حکیم الامت ڈاکٹر علامہ محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ
یہ نظم"جــوابِ شِـکــوہ"* ♥️
دِل سے جو بات نِکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے
قُدسی الاصل ہے رِفعت پہ نظر رکھتی ہے
خاک سے اُٹھتی ہے گردُوں پہ گُزر رکھتی ہے
عِشق تھا فِتنہ گر و سرکش و چالاک مِرا
آسماں چیر گیا نالہء بے باک مِرا
پِیر گردُوں نے کہا سُن کے کہیں ہے کوئی
بولے سیارے سرِ عرشِ بریں ہے کوئی
چاند کہتا تھا نہیں اہلِ زمیں ہے کوئی
کہکشاں کہتی تھی پوشیدہ یہیں ہے کوئی
کُچھ جو سمجھا مِرے شِکوے کو تو رِضواں سمجھا
مُجھے جنّت سے نِکالا ہُوا اِنساں سمجھا
تھی فرِشتوں کو بھی حیرت کہ یہ آواز ہے کیا
عرش والوں پہ بھی کُھلتا نہیں یہ راز ہے کیا
تا سرِ عرش بھی اِنساں کی تگ و تاز ہے کیا
آگئی خاک کی چُٹکی کو بھی پرواز ہے کیا
غافِل آداب سے سُکّانِ زمیں کیسے ہیں
شوخ و گُستاخ یہ پستی کے مکیں کیسے ہیں
اِس قدر شوخ کہ اللہ سے بھی برہم ہے
تھا جو مسجُودِ ملائک یہ وہی آدم ہے
عالمِ کیف ہے دانائے رمُوز کم ہے
ہاں مگر عِجز کے اِسرار سے نامحرم ہے
ناز ہے طاقتِ گفتار پہ اِنسانوں کو
بات کرنے کا سلیقہ نہیں نادانوں کو
آئی آواز غم انگیز ہے افسانہ تِرا
اشکِ بے تاب سے لبریز ہے پیمانہ تِرا
آسماں گیر ہُوا نعرہء مستانہ تِرا
کِس قدر شوخ زباں ہے دِلِ دیوانہ تِرا
شُکرِ شِکوے کو کِیا حُسنِ ادا سے تُو نے
ہم سُخن کر دیا بندوں کو خُدا سے تُو نے
ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں
راہ دِکھلائیں کِسے رہر و منزِل ہی نہیں
تربیت عام تو ہے جوہر قابِل ہی نہیں
جِس سے تعمیر ہو آدم کی یہ وہ گِل ہی نہیں
کوئی قابِل ہو تو ہم شانِ کئی دیتے ہیں
ڈُھونڈنے والوں کو دُنیا بھی نئی دیتے ہیں
ہاتھ بے زور ہیں اِلحاد سے دِل خُوگر ہیں
اُمتی باعثِ رُسوائیِ پیغمبرؐ ہیں
بُت شِکن اُٹھ گئے باقی جو رہے بُت گر ہیں
تھا براہیم پِدر اور پِسرِ آزر ہیں
بادہ آشام نئے بادہ نیا خُم بھی نئے
حرمِ کعبہ نیا بُت بھی نئے تُم بھی نئے
وہ بھی دِن تھے کہ یہی مایہء رعنائی تھا
نازِشِ موسم گُلِ لالہء صحرائی تھا
جو مسلمان تھا اللہ کا سودائی تھا
کبھی محبُوب تُمھارا یہی ہرجائی تھا
کِسی یکجائی سے اب عہدِ غُلامی کر لو
مِلّتِ احمدِ مُرسلؐ کو مقامی کو لو
کِس قدر تُم پہ گراں صُبح کی بیداری ہے
ہم سے کب پیار ہے ہاں نیند تُمھیں پیاری ہے
طبعِ آزاد پہ قیدِ رمضاں بھاری ہے
تُمھی کہہ دو یہی آئین و فاداری ہے؟
قوم مذہب سے ہے مذہب جو نہیں تُم بھی نہیں
جذبِ باہم جو نہیں محفِلِ انجُم بھی نہیں
جِن کو آتا نہیں دُنیا میں کوئی فن تُم ہو
نہیں جِس قوم کو پروائے نشیمن تُم ہو
بِجلیاں جِس میں ہوں آسودہ وہ خِرمن تُم ہو
بیچ کھاتے ہیں جو اِسلاف کے مدفن تُم ہو
ہو نکُّو نام جو قبروں کی تجارت کرکے
کیا نہ بیچو گے جو مِل جائیں صنم پتّھر کے
صفحہء دہر سے باطِل کو مِٹایا کِس نے؟
نوعِ اِنساں کو غُلامی سے چُھڑایا کس نے؟
میرے کعبے کو جبینوں سے بسایا کِس نے؟
میرے قُرآن کو سینوں سے لگایا کِس نے؟
تھے تو آبا وہ تُھارے ہی مگر تُم کیا ہو
ہاتھ پر ہاتھ دھرے مُنتظِرِ فردا ہو
کیا کہا! بہرِ مُسلماں ہے فقط وعدہء حُور
شِکوہ بے جا بھی کرے کوئی تو لازِم ہے شعُور
عدل ہے فاطِرِ ہستی کا ازل سے دستُور
مسلمِ آئیں ہُوا کافر تو مِلے حُور و قُصُور
تُم میں حُوروں کا کوئی چاہنے والا ہی نہیں
جلوہء طُور تو موجُود ہے موسٰی ہی نہیں
مُنفعت ایک ہے اِس قوم کی نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبیؐ دین بھی ایمان بھی ایک
حرم پاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ایک
کُچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
کون ہے تارکِ آئین رُسُولِؐ مُختار؟
مصلحت وقت کی ہے کِس کے عمل کا معیار؟
کِس کی آنکھوں میں سمایا ہے شِعارِ اغیار؟
ہوگئی کِس کی نِگہ طرزِ سلف سے بیزار؟
قلب میں سوز نہیں رُوح میں اِحساس نہیں
کُچھ بھی پیغامِ محمدؐ کا تُمھیں پاس نہیں
جاکے ہوتے ہیں مساجِد میں صف آرا تو غریب
زحمتِ روزہ جو کرتے ہیں گوارا تو غریب
نام لیتا ہے اگر کوئی ہمارا تو غریب
پردہ رکھتا ہے اگر کوئی تُمھارا تو غریب
اُمرا نشہء دولت میں ہیں غافل ہم سے
زِندہ ہے مِلّتِ بیضا غُربا کے دم سے
واعظِ قوم کی وہ پُختہ خیالی نہ رہی
برقِ طبعی نہ رہی شُعلہ مقالی نہ رہی
رہ گئی رسمِ اذاں رُوح بِلالیؓ نہ رہی
فلسفہ رہ گیا تلقینِ غزالیؒ نہ رہی
مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے
یعنٰی وہ صاحبِ اوصافِ حجازی نہ رہے
شور ہے ہو گئے دُنیا سے مسلماں نابُود
ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مُسلم موجُود
وضع میں تُم ہو نصاریٰ تو تمدُّن میں ہنُود
یہ مسلماں ہیں! جِنھیں دیکھ کے شرمائیں یہُود
یوں تو سیّد بھی ہو مِرزا بھی ہو افغان بھی ہو
تم سبھی کُچھ ہو بتاؤ تو مسلمان بھی ہو
دمِ تقریر تھی مُسلم کی صداقت بے باک
عدل اُس کا تھا قوی لوثِ مراعات سے پاک
شجرِ فِطرتِ مُسلم تھا حیا سے نم ناک
تھا شجاعت میں وہ اِک ہستی فوق الادراک
خود گُدازی نم کیفیتِ صہبایش بُود
خالی از خویش شُدن صورتِ مینایش بُود
ہر مسلماں رگِ باطل کے لیے نِشتر تھا
اُس کے آئینہء ہستی میں عملِ جوہر تھا
جو بھروسا تھا اُسے قوّتِ بازو پر تھا
ہے تُمھیں موت کا ڈر اُس کو خُدا کا ڈر تھا
باپ کا عِلم نہ بیٹے کو اگر ازبر ہو
پِھر پِسرِ قابِل میراثِ پِدر کیونکر ہو
ہر کوئی مستِ مے ذوقِ تنِ آسانی ہے
تُم مسلماں ہو! یہ اندازِ مسلمانی ہے!
حیدری فقر ہے نے دولتِ عُثمانی ہے
تم کو اِسلاف سے کیا نسبتِ روحانی ہے؟
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تُم خوار ہُوئے تارکِ قُرآں ہو کر
تُم ہو آپس میں غضب ناک وہ آپس میں رحیم
تم خطاکار و خطابیں وہ خطا پوش و کریم
چاہتے سب ہیں کہ ہوں اوج ثرّیا پہ مقیم
پہلے ویسا کوئی پیدا تو کرے قلبِ سلیم
تختِ فغفُور بھی اُن کا تھا سریرِ کے بھی
یونہی باتیں ہیں کہ تُم میں وہ حمیت ہے بھی؟
خودکُشی شیوہ تُمھارا وہ غیور و خود دار
تُم اخوّت سے گُریزاں وہ اخوّت پہ نِثار
تُم ہو گُفتار سراپا وہ سراپا کردار
تُم ترستے ہو کلی کو وہ گُلستاں بہ کنار
اب تلک یاد ہے قوموں کو حکایت اُن کی
نقش ہے صفحہ ہستی پہ صداقت اُن کی
مِثلِ انجُم اُفُق قوم پہ روشن بھی ہُوئے
بُتِ ہِندی کی محبّت میں برہمن بھی ہُوئے
شوقِ پرواز میں مہجُورِ نشیمن بھی ہُوئے
بے عمل تھے ہی جواں دین سے بدظن بھی ہُوئے
اُن کو تہذیب نے ہر بند سے آزاد کِیا
لا کے کعبے سے صنم خانے میں آباد کیا
قیس زحمت کش تنہائی صحرا نہ رہے
شہر کی کھائے ہَوا بادیہ پیما نہ رہے
وہ تو دیوانہ ہے بستی میں رہے یا نہ رہے
یہ ضرُوری ہے حجابِ رُخ لیلا نہ رہے
گِلہء جور نہ ہو شکوہء بیداد نہ ہو
عِشق آزاد ہے کیوں حُسن بھی آزاد نہ ہو
عہدِ نو برق ہے آتِش زن ہر خِرمن ہے
ایمن اس سے کوئی صحرا نہ کوئی گُلشن ہے
اِس نئی آگ کا اقوامِ کُہن ایندھن ہے
مِلّتِ ختم رُسُلؐ شُعلہ بہ پیراہن ہے
آج بھی ہو جو براہیمؑ کا ایماں پیدا
آگ کر سکتی ہے اندازِ گُلستاں پیدا
دیکھ کر رنگِ چمن ہو نہ پریشاں مالی
کوکبِ غُنچہ سے شاخیں ہیں چمکنے والی
خس و خاشاک سے ہوتا ہے گُلستاں خالی
گُل بر انداز ہے خُونِ شُہدا کی لالی
رنگ گردُوں کا ذرا دیکھ تو عُنّابی ہے
یہ نِکلتے ہُوئے سُورج کی اُفُق تابی ہے
امتیں گلشنِ ہستی میں ثمر چیدہ بھی ہیں
اور محرُومِ ثمر بھی ہیں خِزاں دیدہ بھی ہیں
سینکڑوں نخل ہیں کاہیدہ بھی بالیدہ بھی ہیں
سینکڑوں بطنِ چمن میں ابھی پوشیدہ بھی ہیں
نخلِ اِسلام نمونہ ہے برومندی کا
پھل ہے یہ سینکڑوں صدیوں کی چمن بندی کا
پاک ہے گردِ وطن سے سرِ داماں تیرا
تُو وہ یوسف ہے کہ ہر مصر ہے کنعاں تیرا
قافلہ ہو نہ سکے گا کبھی ویراں تیرا
غیر یک بانگِ درا کُچھ نہیں ساماں تیرا
نخلِ شمع استی و درشُعلہ دُودِ ریشہء تو
عاقبت سوز بُود سایہء اندیشہء تو
تُو نہ مِٹ جائے گا ایران کے مِٹ جانے سے
نشہء مے کو تعلُّق نہیں پیمانے سے
ہے عیاں یورشِ تاتار کے افسانے سے
پاسباں مِل گئے کعبے کو صنم خانے سے
کشتیِ حقّ کا زمانے میں سہارا تُو ہے
عصرِ نو رات ہے دُھندلا سا سِتارا تُو ہے
ہے جو ہنگامہ بپا یورشِ بلغاری کا
غافِلوں کے لیے پیغام ہے بیداری کا
تُو سمجھتا ہے یہ ساماں ہے دِل آزاری کا
اِمتحاں ہے تِرے ایثار کا خود داری کا
کیوں ہِراساں ہے صہیلِ فرسِ اعدا سے
نُور حقّ بُجھ نہ سکے گا نفسِ اعدا سے
چشمِ اقوام سے مخفی ہے حقیقت تیری
ہے ابھی محفِل ہستی کو ضرورت تیری
زِندہ رکھتی ہے زمانے کو حرارت تیری
کوکبِ قسمت اِمکاں ہے خلافت تیری
وقتِ فُرصت ہے کہاں کام ابھی باقی ہے
نُورِ توحید کا اتمام ابھی باقی ہے
مِثل بُو قید ہے غُنچے میں پریشاں ہوجا
رختِ بردوش ہوائے چمنستاں ہوجا
ہے تنک مایہ تُو ذرے سے بیاباں ہوجا
نغمہء موج سے ہنگامہء طُوفاں ہوجا
قوّت عِشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اِسمِ مُحمّدؐ سے اُجالا کر دے
ہو نہ یہ پھُول تو بُلبُل کا ترنُّم بھی نہ ہو
چمنِ دہر میں کلیوں کا تبسُّم بھی نہ ہو
یہ نہ ساقی ہو تو پِھر مے بھی نہ ہو خُم بھی نہ ہو
بزمِ توحید بھی دنیا میں نہ ہو تُم بھی نہ ہو
خیمہء اِفلاک کا اِستادہ اِسی نام سے ہے
نبضِ ہستی تپشِ آمادہ اِسی نام سے ہے
دشت میں دامنِ کُہسار میں میدان میں ہے
بَحر میں موج کی آغوش میں طوفان میں ہے
چین کے شہر مراقش کے بیابان میں ہے
اور پوشیدہ مسلمان کے ایمان میں ہے
چشمِ اقوام یہ نظارہ ابد تک دیکھے
رِفعت شانِ رَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ دیکھے
مردمِ چشمِ زمیں یعنی وہ کالی دُنیا
وہ تُمھارے شُہدا پالنے والی دُنیا
گرمیِ مِہر کی پروردہ ہلالی دُنیا
عِشق والے جسے کہتے ہیں بِلالی دُنیا
تپش اندوز ہے اس نام سے پارے کی طرح
غوطہ زن نُور میں ہے آنکھ کے تارے کی طرح
عقل ہے تیری سِپر عِشق ہے شمشیر تِری
مِرے درویش! خِلافت ہے جہاں گیر تِری
ماسوٰی اللہ کے لیے آگ ہے تکبیر تِری
تُو مسلماں ہو تو تقدیر ہے تدبیر تِری
کی مُحمّدؐ سے وفا تُو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لَوح و قلم تیرے ہیں
کلام حکیم الامت ڈاکٹر علامہ محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہہجوا ساقی ہو تو پِھر مے بھی نہ ہو خُم بھی نہ ہو
بزمِ توحید بھی دنیا میں نہ ہو تُم بھی نہ ہو
خیمہء اِفلاک کا اِستادہ اِسی نام سے ہے
نبضِ ہستی تپشِ آمادہ اِسی نام سے ہے
دشت میں دامنِ کُہسار میں میدان میں ہے
بَحر میں موج کی آغوش میں طوفان میں ہے
چین کے شہر مراقش کے بیابان میں ہے
اور پوشیدہ مسلمان کے ایمان میں ہے
چشمِ اقوام یہ نظارہ ابد تک دیکھے
رِفعت شانِ رَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ دیکھے
مردمِ چشمِ زمیں یعنی وہ کالی دُنیا
وہ تُمھارے شُہدا پالنے والی دُنیا
گرمیِ مِہر کی پروردہ ہلالی دُنیا
عِشق والے جسے کہتے ہیں بِلالی دُنیا
تپش اندوز ہے اس نام سے پارے کی طرح
غوطہ زن نُور میں ہے آنکھ کے تارے کی طرح
عقل ہے تیری سِپر عِشق ہے شمشیر تِری
مِرے درویش! خِلافت ہے جہاں گیر تِری
ماسوٰی اللہ کے لیے آگ ہے تکبیر تِری
تُو مسلماں ہو تو تقدیر ہے تدبیر تِری
کی مُحمّدؐ سے وفا تُو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لَوح و قلم تیرے ہیں
کلام حکیم الامت ڈاکٹر علامہ محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ
Copied
No comments