میں اس وقت پندرہ‘سولہ برس کا تھا اور پہلی مرتبہ ولایت جا رہا تھا جہاز میں میری برابر کی نشست پرایک مولانا براجمان تھے‘وہ خاصے معصوم تھے میں نے دریافت کیا کیوں چچاجان آپ کس سلسے میں انگلستان جارہے ہیں تو کہنے لگے
"بیٹا میں کافروں کو مسلمان کرنے جارہا ہوں "
میں نے پوچھا
"آپ کو انگریزی آتی ہے ؟"
کہنےلگےِ"نہیں آتی‘جس کو مسلمان ہونا ہوگا"اسے خودبخود میری زبان سمجھ آجائے گی "
ہم کراچی سے طہران"قاہرہ، ایتھنز رکتے روم پہنچے‘ایئرلائن کی طرف سےاعلان کیاگیا کہ مسافر حضرات ایئرپورٹ کے ریستوران میں اپنی مرضی کا کھانا تناول فرمائیں‘بل کمپنی کے ذمہ ہوگا ریستوران میں بیٹھے تو میں نے ایک چکن روسٹ کا آرڈر دیا
"مولانا! آپ کیاکھائیں گے ؟"میں نے اپنے ہم سفرچچاجان سے پوچھا تو انہوں نے کہا
اس گوری لڑکی سے کہو کہ میرے لیے ابلی ہوئی سبزیاں لےآئےکیونک ہ گوشت تویہاں حلال نہیں ہوگا "
میں نے بھی بھوک کی وجہ سے اس طرف دھیان نہیں دیاتھا بہرحال خوشبودار مرغ کے گرد انڈے اور آلو کے قتلےاور سلاد وغیرہ بہار دکھا رہے تھےجب کہ گوری لڑکی نے ایک پلیٹ مولانا کے آگےرکھ دی جس میں ایک ابلی گاجر اور دو ابلےآلو پڑے تھے سفری چچاجان نے گاجرکھانے کی کوشش کی مگر میرے روسٹ سے ان کی نظریں نہ ہٹتی تھیں
بالآخر انہوں نے گرجدارآواز میں کہا
"برخودار! اس گوری ہوٹل والی زنانی سے کہو‘میرے لیے بھی یہی مرغ لےآئے "یہ شکل سےحلال لگتا ہے..
مستنصر حسین تارڑ
No comments