لاہور کے رنگ۔۔۔۔کرشن چندر کے قلم سے

Share:
لاہور آدمی کو بوڑھا نہیں ہونے دیتا، 
کرشن چندر 

کسی شہر میں رہنا اور کسی شہر میں بسنا دو مختلف چیزیں ہیں اور دونوں مختلف کیفیات۔
لاہور میں رھنا نہیں بسنا پڑتا ہے اور پھر لاہور آپ کے دل میں بس جاتا ہے اور ایسا بستا ہے کہ پھر کوئی اور اس دل میں بس نہیں سکتا۔

‏ مہرالنساء لاہور میں نور جہاں بن کر آسودۂ خاک ہوئیں۔ لاہور سے انہیں بڑی محبت تھی، جس کا اظہار اس لازوال شعر کی صورت میں کیا
‏ لاہور را بہ جان برابر خریدہ ایم
‏جاں دادہ ایم و جنتِ دیگر خرید ہ ایم
‏(لاہور کو ہم نے جان کے برابر قیمت پر حاصل کیا ہے۔ ہم نے جان قربان کر کے نئی جنت خرید لی ہے)

‏پطرس بخاری نے کہا تھا کہ لاہور کے کاٹے کا علاج نہیں۔ 
کرشن چندر نے لکھا کہ لاہور آدمی کو بوڑھا نہیں ہونے دیتا۔ 
مشہور افسانہ نگار کرشن چندر لاہور میں رہے، ایف سی کالج میں تعلیم پائی۔ وہ اس شہر سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔ آزادی کے وقت ہندوستان جانے کے بعد بھی اپنی روح لاہور ہی میں چھوڑ گئے۔ 
اس شہر کا تذکرہ وہ کسی بچھڑے ہوئے محبوب کی طرح رقت آمیز لہجے میں کیا کرتے تھے۔ وہ لاہور سے آنے والوں کو بڑی حسرت سے دیکھتے اور اپنے محبوب شہر کی گلی کوچوں، بازاروں، عمارتوں، باغوں کا تفصیل سے حال معلوم کیا کرتے۔ کرشن چند ر نے احمد ندیم قاسمی کے نام اپنے خط میں لکھا کہ لاہور کا ذکر تو کجا اس شہر کے بارے میں سوچتا بھی ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔
راجندر سنگھ بیدی جنہوں نے اپنے ادبی سفر کا آغاز محسن لاہوری کے قلمی نام سے کیا تھا، مرتے دم تک لاہور کے عشق میں گرفتار رہے۔ لاہور کی باتیں کرتے ہوئے ان کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگ جاتی۔ ایک مرتبہ ٹی وی پر انٹرویو کے دوران لاہور کا ذکر آیا تو پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ اے حمید برما میں قیام کے دوران اپنی جنم بھومی امرتسر کی بجائے لاہور کو یاد کیا کرتے تھے۔ وہ کہاکرتے تھے کہ لاہور کا نام زبان پر آتے ہی طلسم و اسرارکی الف لیلہ کا ایک باب کھل جاتا ہے۔ لاہور ایک شہر ہی نہیں، یہ ایک کیفیت کا نام ہے۔
سید احمد شاہ پطرس بخاری کا شمار بھی لاہور کے سچے عاشقوں میں ہوتا تھا۔ نیویارک میں قیام کے دوران انہوں نے صوفی تبسم کے نام ایک خط میں پوچھا، "کیا راوی اب بھی مغلوں کی یاد میں آہیں بھرتا ہے؟" 
گویا یہ شہر اپنے عاشقوں کے اعصاب پر ایسا سوار ہوتا ہے کہ وہ کبھی کسی دوسری جگہ پر سکون نہیں پا سکتے۔ جمنا داس اختر، گوپال متل، پران نوائل، اور ان جیسے کئی قلمکار آزادی کے بعد لاہور سے کوچ کر گئے، لیکن ان کا دل میں لاہور ہی اٹکا رہا۔ معروف شاعرہ شبنم شکیل لاہور کے ہجر میں غزلیں کہتی رہیں۔ بھارتی فلمی اداکار پران، اوم پرکاش، دیو آنند، یش چوپڑا، اور ناول نگار بپسی سدھوا جیسے مشاہیر لاہور کی بزم سے اٹھ جانے کے باوجود اس کی طرف بار بار مڑ کر دیکھتے رہے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ لاہور ایک کیف و مستی کا نام ہے، ایک نشہ ہے جو طاری ہوجائے تو اترنے کا نام نہیں لیتا۔ پیدا ہونے کے لئے لاہور کے درشن کرنا بھی ضروری ہے۔


کوئی جنت  تیری  ہور  وی اے؟
جتھے  وسدے  نے سب دل والے
جتھے وسدا شہر لاہور  وی اے۔۔!

No comments